تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ہر دور میں جنگوں اور نفرتوں کے شعلے بھڑکتے نظر آتے ہیں۔ خون کی ندیاں بہتی ہیں، لاکھوں بے گناہ جانوں کے چراغ بجھتے ہیں، اور تہذیبیں نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ لیکن کیا یہی انسانیت کی منزل ہے؟ کیا ہم صرف تباہی اور بربادی کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ نہیں! انسان کی اصل عظمت اس کے محبت، عزت، بصیرت، شراکت، رواداری اور باہمی افہام و تفہیم کے جذبوں میں پنہاں ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جنگوں اور نفرتوں کی تاریک وادیوں کو چھوڑ کر محبت، مفاہمت، تنوع اور بصیرت کی روشن راہوں پر چلیں۔
محبت: انسانیت کا سب سے بڑا زریں اصول ہے
محبت وہ قوت ہے جو دشمن کو دوست، اجنبی کو رفیق اور بیگانے کو شریک بنا دیتی ہے۔ یہ کوئی جذباتی نعرہ نہیں، بلکہ ایک عملی فلسفہ ہے جس پر عمل کر کے ہم معاشرے میں حقیقی امن اور سکون کی فضا قائم کر سکتے ہیں۔ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔” یہی محبت کا وہ طاقتور سبق ہے جو ہمیں دوسروں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
ثقافت: تنوع میں یکجہتی کا حسن
دنیا مختلف ثقافتوں، زبانوں اور روایات کا ایک حسین و جمیل امتزاج ہے۔ یہ تنوع انسانیت کا زیور ہے، یاد رکھیں اختلاف نقص نہیں بلکہ تکمیل ہے۔ جب ہم دوسروں کے ثقافتی ذائقوں کو برتتے ہیں، ان کے دستر خوانوں پر بیٹھتے ہیں، ان کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں، ان کی زبانوں کو سیکھتے ہیں، ان کے خیالات کو ملاحظہ کرتے ہیں، ان کے تجربات سے سیکھتے ہیں اور اگر موافقت ہو تو رشتے بھی نبھاتے ہیں تو یہی وہ طرزِ عمل ہے جس سے ہماری سوچ وسیع تر ہوتی ہے۔ علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا تھا
"تنوع میں وحدت ہو تیرا امتیاز
اسی سے ہے ترے دَور کا آغاز”
علمی، نظری، سماجی اور ثقافتی ورثے کا تبادلہ ہمیں ذہنی اور نفسیاتی تنگ نظری سے نکال کر ایک عالمگیر بھائی چارے کی طرف لے جاتا ہے۔
بصیرت: مخلصانہ فہم و فراست
بصیرت صرف علم نہیں، بلکہ دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے کی گہری صلاحیت کا نام ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو تعصبات کے اندھیروں کو مٹا دیتی ہے۔ جب ہم دوسروں کی باتیں غور سے سنتے ہیں، ان کے خدشات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں تو یاد رکھیں نفرتیں رفتہ رفتہ خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "دوسروں کے زخموں کو اپنے ہاتھ سے چھو کر دیکھو، تب تمہیں اندازہ ہوگا کہ درد کیا ہوتا ہے۔”
آج کے دور میں جب کہ نفرتیں، لڑائیاں، جنگیں اور تقسیم و تفریق کی نامطلوب سیاست عروج پر ہے، ہمیں اپنا مخلصانہ اور وفادارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسی مقصد کے لیے مختلف چھوٹے بڑے اقدامات مثلاً کسی اجنبی کی مدد کرنا، کسی مختلف ثقافت، علاقے یا مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کے ساتھ دوستی نبھانا، متصادم افراد یا متحارب گروہوں کے درمیان صلح کے لیے متحرک ہونا یا کسی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنا یہ سب سرگرمیاں دراصل محبت کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ہمیں اپنے گھروں، علاقوں، اداروں اور سوشل میڈیا پر امن، محبت، اتحاد، خیر خواہی اور بصیرت کی باتیں کرنی چاہیے نہ کہ الٹ سمت والی۔
انسانی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جنگوں نے کبھی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں دیا۔ واقعہ ہیروشیما ہو یا دو عالمگیر جنگیں، سانحہ مشرق وسطی ہو یا روس یوکرین جنگ، مسئلہ کشمیر ہو یا پھر دنیا بھر میں پھیلے اور ابھرے تنازعات، ہر جگہ ثابت ہوا ہے کہ نفرت اور جنگ صرف تباہی لاتی ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کو ایک پرامن دنیا دینا چاہتے ہیں تو ہمیں آج ہی عہد کرنا ہوگا کہ ہم محبت، شراکت عزت اور بصیرت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ کیونکہ علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ
محبت کی اک دنیا بنا دے
نفرتوں کے بکھیڑے مٹا دے
آئیے، اس مبارک دور کا آغاز ہم اپنے دل اور ذات سے کریں اور اس دنیا کو ابادی اور سکون کا گہوارہ بنائیں۔