آکلینڈ میں پاکستان ٹیم کی شکست پر سابق کرکٹرز بھی تلملا اٹھے ہیں، وسیم اکرم نے کہا کہ ٹیم پرفارمنس نہ دے تو کپتان یا کوچ کو جانا پڑتا ہے، اظہر علی کی قیادت پر بھی سوال اٹھے گا۔
تفصیلات کے مطابق آکلینڈ میں گرین شرٹس کی شکست پر سابق کرکٹرز نے بھی طنز کے تیر چلادیے۔ ایک انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا کہ پانچواں ریگولر بولر نہ ہونے سے ہمیشہ نقصان تو ہوتا ہے، ٹیم پرفارمنس نہ دے تو کپتان یا کوچ کو جانا پڑتا ہے، اب اظہرعلی کی کپتانی پر سوال اٹھے گا، سابق پیسر شعیب اختر نے کہا کہ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، آسان وکٹ پر پاکستان کو آخری 19 اوورز میں 125 رنز تو بنانا چاہیے تھے، انھوں نے کہا کہ وہاب ریاض کی جانب سے مایوسی نظر آرہی ہے، عامر نے بھی مایوس کیا، کھلاڑیوں کو ذمے داری لینا ہوگی، آکلینڈ میں 290 رنز کا ہدف کافی نہیں تھا، انھوں نے مزید کہا کہ قسمت اسی وقت خراب ہوتی ہے جب آپ اچھا نہیں کھیلتے۔
عبدالقادر نے کہا کہ پاکستان ٹیم بیٹنگ اور بولنگ دونوں میں مایوس کرتی ہے، اچھا ٹوٹل حاصل کرنے کیلیے مڈل آرڈر کا ذمہ دارانہ کھیل ضروری تھا، بعد ازں ٹیل انڈرز ہی اوور پورے کھیلنے کی کوشش کرتے تو گرین شرٹس 325رنز بناسکتے تھے، بولرز بھی اہم موقع پر بڑی غلطیاں کرکے حریف کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن ان کو سمجھانے اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے والا کوئی نہیں ہے، پی سی بی میں 16،16لاکھ تنخواہ لینے والے کیا کام کررہے ہیں،بورڈ والوں سے تو مسائل پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کرکٹ کو ایسے لوگ چلا رہے ہیں جن کو اس کھیل کی کوئی سمجھ یا تجربہ نہیں،ٹیم میں بہتری کیسے آئے گی، حکومت اور وزیر اعظم سے ہی درخواست کرسکتے ہیں کہ ان لوگوں سے جان چھڑا دیں۔
رمیز راجہ نے کہا کہ آج پاکستان ٹیم کی قسمت اچھی نہیں تھی،گرین شرٹس اگر مکمل اوورز کھیل لیتے تو ہدف تقریباً320 کے قریب اور کیویز کیلیے مشکل ہوتا، انھوں نے مزید کہا کہ بارش کے باعث پچ گیلی ہوگئی جس کی وجہ سے گیند پھنس رہا تھا لیکن اظہر علی اچھی بولنگ کی ہے، عرفان کی فٹنس پر سوال اٹھتا ہے کہ ان کی سپیڈ 130 سے اوپر نہیں گئی،ٹیم میں ایک ہی قسم کے لیفٹ آرم بولرز کا بھی نقصان ہورہا ہے، انھوں نے کہا کہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کا سخت مقابلہ کیا، اس لیے ٹیم کو داد دینی چاہیے، اچھی بات یہ ہے کہ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا جب ٹیم لڑکر ہارتی ہے۔
عبدالرزاق نے کہا کہ اظہر علی سلو پچز کے بیٹسمین ہیں، انٹرنیشنل تجربہ کم ہونے کے باوجود ان کے کندھوں پر قیادت کی بھاری ذمہ داری بھی آن پڑی ہے، ہوسکتا ہے کہ دو یا تین سال میں کپتانی کے گر سیکھ بھی جائیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی، ہماری عالمی رینکنگ بہت پیچھے جاچکی ہے، بورڈ بہتری لانا چاہتا ہے تو ابھی درست فیصلے کرنا ہونگے، ورنہ زوال کی جانب سفر یونہی چلتا رہے گا۔سعید اجمل نے کہا کہ پاکستان کی کارکردگی توقعات کے مطابق نہیں تھی،ٹیم نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز کو سمجھ نہیں سکی جبکہ کیویز نے بھرپور فائدہ اٹھایا، اسکواڈ میں ایسے بولرزکی کمی محسوس ہورہی ہے جو رنز روکنے کیساتھ وکٹیں بھی لے کر حریف کو دباؤ میں لاسکیں۔