بچپن کی شادی ، ایک کہانی اور آصف زرداری

آسیہ ایک تنگدست گھرانے میں پیدا ہوئی، ایک کمرے پر مشتمل چھت کے نیچے دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی۔ غربت ان کے در و دیوار سے جھانکتی تھی، لیکن آسیہ کو پڑھنے لکھنے کا جنون تھا۔ اس نے باپ سے ضد کر کے اسکول میں داخلہ تو لے لیا، مگر حالات روز بروز اس قدر کٹھن ہوتے گئے کہ گھر کا چولہا جلانا بھی دشوار ہو گیا۔

محض تیسری جماعت میں تھی کہ اس کے لیے ایک رشتہ آیا۔ غربت کے سامنے جھکے باپ نے بیٹی کی معصوم آنکھوں کے خواب دیکھے بغیر اس کا ہاتھ ایک اجنبی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ آسیہ کی عمر اس وقت صرف 12 سال تھی — نہ ذہنی بلوغت، نہ جسمانی پختگی — اور وہ دنیا کی بھاری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے رخصت ہو گئی۔

سسرال کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کھیلنے والی گڑیا خود ایک ماں بننے کے سفر پر روانہ ہو گئی۔ شوہر ایک نجی کمپنی میں چھوٹی سی ملازمت کرتا تھا۔ وسائل محدود تھے، مگر وقت کے ساتھ آسیہ نے خود کو حالات سے ہم آہنگ کرنا سیکھ لیا۔

شادی کے پانچ برس گزرے ہی تھے کہ اسے پہلی بار ماہواری آئی اور ساتھ ہی ماں بننے کی نوید ملی۔ 17 برس کی عمر میں وہ خود ایک ناسمجھ بچی تھی جس کی گود میں ایک اور ناتجربہ کار جان آ چکی تھی۔ کمزور جسم، نامناسب غذا، اور طبی نگہداشت کا فقدان .. یہ سب مل کر نہ صرف آسیہ کی صحت کو نگلتے گئے بلکہ بچے پر بھی گہرے اثرات چھوڑ گئے۔ بچہ دیکھنے میں تو عام بچوں جیسا تھا، لیکن اس کا ذہنی ارتقاء شدید متاثر ہوا۔ افسوس، نہ کسی نے سمجھایا، نہ کسی نے رہنمائی کی۔

اگلے چھ سال آسیہ کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا دردناک خواب بن گئے۔ ہر سال ایک نیا بچہ۔ جب چھٹا بچہ دنیا میں آیا، تو ڈاکٹروں نے وارننگ دے دی: "اب ایک اور حمل آسیہ کی جان لے سکتا ہے۔” اور یوں، 23 سال کی عمر میں آپریشن کے زریعے بچوں کی پیدائش کا سلسلہ بند کر دیا گیا ۔

مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے تین بچے مختلف بیماریوں کے باعث یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ باقی بچ جانے والے بچوں میں سے ایک بیٹا ذہنی طور پر کمزور نکلا، جو آج بھی معاشرے کی بے حسی، طعنوں، اور ظالمانہ رویوں کا نشانہ بنتا ہے۔ اسے سمجھنے والا کوئی نہیں، اسے سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ اگر اسے سازگار ماحول ملا ہوتا تو شاید وہ بھی کسی عام انسان کی طرح ایک باعزت زندگی گزار رہا ہوتا۔

آسیہ نے 30 سال کی عمر میں ہی مینوپاز کا سامنا کیا اور یوں وقت سے پہلے ہی ذہنی و جسمانی طور پر ایک تھکی ماندہ، پژمردہ عورت بن گئی۔ آج جب وہ ساٹھ برس کی ہے، تو ایک نفسیاتی مریضہ کی صورت میں زندہ لاش بنی زندگی گزار رہی ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس انجام کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ محض آسیہ کی کہانی نہیں، یہ ان ہزاروں لڑکیوں کی داستان ہے جو اپنے بچپن، تعلیم، خواب اور زندگی سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ ایک معاشرتی ذمہ داری نبھانے کے نام پر انہیں بیاہ دیا جاتا ہے، جبکہ وہ خود ابھی معصوم، ناپختہ اور بےخبر ہوتی ہیں۔

حال ہی میں صدرِ پاکستان نے کم عمری کی شادی پر پابندی کے قانون پر دستخط کیے ہیں۔ یہ قدم بظاہر ایک انسانی حقوق کی کوشش ہے، لیکن اس کے اثرات کہیں زیادہ وسیع اور تہہ دار ہیں۔ اس مسئلے میں مذہب، ثقافت، سماجی نفسیات اور بین الاقوامی دباؤ سب شامل ہیں۔

ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھے ہیں جہاں 12 سالہ بچی دلہن بنا دی جاتی ہے، اور 30 سال کی عمر میں وہ اپنے دکھ، تھکن اور محرومیوں کی گٹھڑی کے ساتھ زندگی کا بوجھ اٹھائے چل رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ہم صرف قانون سازی سے یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں؟

نہیں … قانون کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک اجتماعی شعور، سماجی آگاہی، والدین کی تربیت، اور مذہبی رہنماؤں کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اجتماعی طور پر اپنی سوچ نہیں بدلیں گے، آسیہ جیسے چہرے بار بار اسی اذیت سے گزرتے رہیں گے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو صرف بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ ان کے بچپن کو محفوظ، تعلیم کو یقینی، اور خوابوں کو حقیقت بنانے کا موقع دیں۔ ورنہ یہ معاشرہ معصوم بچیوں کی قبریں تو کھودے گا، مگر خود کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔

سینٹ نے اس بل کو (بچوں کی شادی کی ممانعت کا بل)منظور کیا جو شیری رحمان نے پیش کیا تھا اور صدر آصف زرداری نے جمیعت علماء اسلام مولانا فضل الرحمان کے گروپ کے دباؤ کے باوجود اس بل پر دستخط کئے.

جب میں نے یہ بل دیکھا تو مجھے خوشی ہوئی کہ مستقبل میں آسیہ جیسی خواتین اس ظلم کا شکار نہیں ہوں گی انشااللہ.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے