چین گزشتہ دو دہائیوں میں خلائی تحقیق اور ایرو اسپیس ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک عالمی لیڈر کے طور پر ابھرا ہے۔ خلابازوں کے مشنز سے لے کر چاند اور مریخ تک کامیاب Explorations، سیٹلائٹ نیٹ ورکس کی تعمیر، اور بین الاقوامی خلائی تعاون، چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خلائی پروگرام کو جدید بنانے میں مصروف ہے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی اس ٹیکنالوجی میں خودکفیل بنانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم چین کی ایرو اسپیس میں حیرت انگیز ترقی، اہم کامیابیوں کے اعداد و شمار، اور خطے کے دیگر ممالک کو اس کے تعاون کا تفصیلی جائزہ پیش کریں گے۔
چین کے خلائی سفر میں اہم سنگ میل
چین کا خلائی پروگرام 1956 میں شروع ہوا، لیکن 21ویں صدی میں اس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (CNSA) اور اسٹیٹ کی سپورٹ نے اسے دنیا کی ٹاپ خلائی طاقتوں میں شامل کر دیا ہے۔ اگر چین کی حالیہ خلائی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کو جدید دور کی سب سے بڑی کامیابیوں میں شمار کر سکتے ہیں.
30 مارچ کو چین نے علی الصبح جنوبی جزیرے کے صوبے ہینان کے ساحل پر وینچانگ خلائی لانچ سائٹ سے ایک نیا مواصلاتی ٹیکنالوجی ٹیسٹ سیٹلائٹ مجوزہ مدار میں بھیجا۔سیٹلائٹ کو رات 12 بج کر 5 منٹ پر لانگ مارچ 7 اے راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا۔ یہ بنیادی طور پر ملٹی بینڈ اور تیز رفتار مواصلاتی ٹیکنالوجی کی توثیق کے لئے استعمال کیا جائے گا.یہ لانچ لانگ مارچ کیریئر راکٹ سیریز کا 566 واں مشن تھا۔
سال 2003پہلا چینی خلاباز یانگ لیوے خلاء میں گیا، چین امریکہ اور روس کے بعد تیسرا ملک بنا جس نے خود انسانی خلائی مشن بھیجا۔ اسکے بعد سال 2007میں چین نے چاند کے لیے چھانگ عہ -1 مشن بھیجا، جو چینی چاند Explorations کا آغاز تھا۔پھر 2013 میں چھانگ عہ 4 یوٹورو چاند پر اتر کر تاریخ رقم کر دی یہ چاند پر لینڈنگ کا 1976 کے بعد پہلا موقع تھا ۔ اسکے بعد 2019 میں چھانگ عہ -4 مشن نے چاند کی فار سائیڈ یعنی تاریک حصے پر لینڈنگ کی جو کہ ایک تاریخی کامیابی تھی ، پھر 2020 میں چھانگ عہ 5 نے چاند سے نمونے واپس زمین پر بھیجے ۔
اگلے ہی سال یعنی سال 2021 میں یہ سفر چاند سے بڑھ کر مریخ تک پہنچ گیا جہاں Tianwen-1 مشن کامیابی سے پہنچا اور Zhurong رور نے مریخ کی سطح پر کامیاب لینڈنگ کی۔ اگلے ہی برس سال 2022 میں چین نے تیانگونگ خلائی اسٹیشن کی تعمیر مکمل کی، جو اب بین الاقوامی تعاون کے لیے کھلا ہے۔امریکہ کے بعد چین اب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سیٹلائٹ لانچ کرنے والا ملک ہے.
چین کا سیٹلائٹ پروگرام اور نیویگیشن سسٹم
چین کا اپنا جی پی ایس سسٹم، جوامریکہ روس، اور گلیلیو یورپ کے بعد چوتھا عالمی نیویگیشن نیٹ ورک ہے۔2020میں مکمل ہونے والا یہ سسٹم 1.5 میٹر تک کی درستگی سے کام کرتا ہے۔ اسکے علاوہ کمرشل طور پر لینڈ سپیس (LandSpace) اور آئی سپیس (i-Space) جیسی کمپنیاں سستی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ صرف 5 سال بعد یعنی 2023 تک چین کے 500 سے زیادہ سیٹلائٹس مدار میں موجود ہونگے۔
چین کا بین الاقوامی خلائی تعاون: پاکستان، بنگلہ دیشن، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی معاونت
چین نہ صرف اپنے خلائی پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کو بھی خلائی ٹیکنالوجی میں مدد دے رہا ہے۔ پاکستان ان اہم شراکت داروں میں پہلے نمبر پر ہے ، چین کی مدد سے پاکستان 2011 میں PAKSAT-1R لانچ کر چکا ہے جبکہ 2018 میں بھی PRSS-1 ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ لانچ کیا گیا یہ چین اور پاکستان کے درمیان خلائی لحاظ سے دوسری مرتبہ تعاون تھا۔ پاکستان کے زیادہ فاصلے کا سینسنگ سیٹلائٹ نمبر 1 چائنا اکیڈمی آف خلائی ٹیکنالوجی کے تحت ایک کمپنی کی جانب سے پاکستان کے لئے تیار کردہ ایک آپٹیکل ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کا تھا۔
اسی طرح پاکستان چین چاند مشن بھی جاری ہے ۔ 3 مئی 2024 کو چانگ 6 لانچ کیا گیا ۔ پاکستان کے چاند کے مصنوعی سیارہ "آئی کیوب -کیو” کی لانچنگ پاک چین خلائی تعاون کے فروغ اہم پیشرفت ہے۔ یہ سیٹلائٹ مستقبل کے مشنز بشمول چانگ ای 7 اور 8 کی بھی مدد کرے گا، جس کا مقصد چاند کے جنوبی قطب کی کھوج کرنا اور روس کے تعاون سے ایک اڈہ تعمیر کرنا ہے۔
دیگر ممالک میں بنگلہ دیش کا Bangabandhu-1 (2018) چین کی مدد سے لانچ ہونے والا پہلا سیٹلائٹ ہے اسکے علاوہ چین نے ایران کو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور ڈیٹا شیئرنگ میں مدد دی۔ افریقی ممالک ایتھوپیا، نائجیریا، سوڈان کو چین نے سیٹلائٹ لانچ کرنے میں مدد دی۔اور لاطینی امریکہ کے وینزویلا، بولیویا، ارجنٹائن کے ساتھ خلائی تعاون کے معاہدے بھی کیے۔
تیانگونگ خلائی اسٹیشن: بین الاقوامی تحقیق کا مرکز
چین کا تیانگونگ خلائی اسٹیشن (TSS) اب مکمل ہو چکا ہے اور یہ بین الاقوامی سائنسدانوں کے لیے کھلا ہے۔چین کا تیانگونگ خلائی اسٹیشن امریکہ اور روس کے بعد تیسرا بڑا اسٹیشن ہے۔ چین نے اسے بین الاقوامی شراکت داریوں کے لیے کھول دیا ہے۔یورپی خلائی ایجنسی (ESA) اور متعدد ایشیائی ممالک چین کے ساتھ تحقیقی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔پاکستان، روس، فرانس اور دیگر ممالک کے سائنس دان تیانگونگ پر تجربات کر سکیں گے۔
30 دسمبر 2024 کو چین کے خلائی اسٹیشن کی مکمل تعمیر کی دوسری سالگرہ کے موقع پر چائنا مینڈ اسپیس انجینئرنگ آفس نے پہلی بار "چین کے خلائی اسٹیشن کی سائنسی تحقیق اور اطلاق پر پیشرفت رپورٹ” (2024) جاری کی۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے چین نے 4 انسان بردار پروازوں، 3 کارگو سپلائیز مشنز اور خلائی جہازوں کی واپسی کے4 مشنز، 5 خلابازوں کے 15 دفعہ طویل مدتی مدار میں قیام،10 خلابازوں کے کیبن سے باہر پے لوڈز اطلاق کی تنظیم اور تکمیل ، کیبن سے باہر مرمت کے متعدد مشنز کی انجام دہی اور خلابازوں کی کیبن سے باہر سرگرمیوں کے حوالے سے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
"خلاء اور خلائی تحقیق، انسانیت کے فائدے کیلئے ہے”: چینی خلائی تعاون پر اقوام متحدہ کا مؤ قف
اقوام متحدہ کے دفتر برائے خلائی امور (UNOOSA) کی ڈائریکٹر آرتی ہولا-مینی نے سی جی ٹی این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ "آؤٹر اسپیس ٹریٹی کے مطابق، خلا اور خلائی تحقیق کا مقصد تمام انسانیت کی بہبود ہے۔” یہ بات انہوں نے 24 اپریل کو چین کے خلائی دن (Space Day of China) کے موقع پر کہی، جس کا موضوع عالمی تعاون کی اہمیت تھا۔
خلائی تحقیق میں عالمی تعاون کی ضرورت
ہولا-مینی کے مطابق، خلائی تحقیق کے لیے متعدد ممالک اور اداروں کی شمولیت ضروری ہے۔ عالمی تعاون نہ صرف مساوی شراکت کو یقینی بناتا ہے بلکہ سائنسی ترقی اور ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت سازی کو بھی تیز کرتا ہے۔ تاہم، تمام خلائی ممالک اس معاملے پر متفق نہیں ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق، امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو چین کے خلائی منصوبوں میں شامل ہونے سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے، جس کی وجہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور سلامتی کے خدشات بتائے گئے ہیں۔
سیٹلائٹ ڈیٹا شیئرنگ: زندگیاں بچانے کے اقدام
سیٹلائٹ ڈیٹا کا اشتراک اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، لیکن یہ آفات کے انتظام اور فوری ردعمل کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مثال کے طور پر، جب 28 مارچ 2025 کو میانمار میں 7.9 شدت کا زلزلہ آیا تو چین نے 30 سے زائد سیٹلائٹس (گاؤفن، زیوان، اور جیلن سیریز) کے ذریعے متاثرہ علاقوں کی ہائی ریزولوشن تصاویر فراہم کیں، جس سے منڈالے کے قریب 480 سے زائد تباہی زدہ مقامات کی نشاندہی ممکن ہوئی۔
چین کے فینگ یون موسمیاتی سیٹلائٹس بھی عالمی سطح پر آفات سے نمٹنے میں مدد کر رہے ہیں۔ چائنا میٹرولوجیکل ایڈمنسٹریشن کے مطابق، یہ سیٹلائٹس 133 ممالک کو ڈیٹا فراہم کر چکے ہیں، جو موسم کی پیشگوئی اور قدرتی آفات کی نگرانی میں معاون ہیں۔
مشترکہ مشن، مشترکہ خطرات
کم زمینی مدار (LEO) کے سیٹلائٹس اب صرف زمینی مشاہدے اور مواصلات تک محدود نہیں رہےبلکہ یہ زمین کو خلائی خطرات (جیسے شہاب ثاقب) سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل ایسٹرونوٹیکل فیڈریشن (IAF) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسٹوفر فائچٹنگر نے سی جی ٹی این کو بتایا کہ : "ہمیں زمین کے قریب موجود اجسام کی مؤثر نگرانی، ان کی بروقت شناخت، اور پھر ایک عالمی سطح پر مربوط حکمت عملی درکار ہے۔”
چین کے چینگ ئے-7 مشن کی ڈپٹی چیف ڈیزائنر تان یوہوا نے بھی بین الاقوامی تعاون پر زور دیا۔ انہوں نے دوسری بین الاقوامی ڈیپ اسپیس ایکسپلوریشن کانفرنس (IDSEC) میں کہا:”ہم دنیا کی بڑی رصد گاہوں کے ساتھ مل کر شہاب ثاقب کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خلاف دفاعی مشنز کی بہتر تیاری کی جا سکے۔”
چین کی قیادت میں عالمی تعاون
چین نے جیو پولیٹیکل تقسیم کے باوجود خلائی تحقیق میں خود انحصاری کی راہ اختیار کی۔ امریکہ کی پابندیوں کی وجہ سے چین کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) سے خارج کر دیا گیا تھا، لیکن اب چین نے اپنا خلائی اسٹیشن (CSS) بنایا ہے، جو ایک کھلا تحقیقی پلیٹ فارم ہے۔ UNOOSA کے ساتھ شراکت میں، چین نے 17 ممالک کے 9 بین الاقوامی تجربات کو CSS پر منتخب کیا ہے۔ چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی کے 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگلے 10 سے 15 سال میں اس اسٹیشن پر 1,000 سے زائد تحقیقی منصوبے انجام دیے جائیں گے۔
چین انٹرنیشنل لیونر ریسرچ اسٹیشن (ILRS) کے ذریعے چاند پر بین الاقوامی تعاون کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ حال ہی میں، چین اور سینیگال نے ایک معاہدے پر دستخط کیے، جو افریقی ممالک کے لیے خلائی تحقیق میں شامل ہونے کا ایک اہم قدم ہے۔ سینیگال خلائی ایجنسی کے ڈائریکٹر مرعم کائرے نے سی جی ٹی این کو بتایا کہ "ہمیں اپنے نوجوانوں کو خلائی سائنس میں تربیت دینے، انفراسٹرکچر بنانے اور اگلی نسل کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ ILRS جیسے بڑے منصوبے ہمارے لیے اہم ہیں۔”
کمرشل خلائی تعاون
چین نے عمان کے لیے ایک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی لانچ کیا، جو عمانی اسٹارٹ اپ Oman Lens اور چینی کمپنیStar. Vision Aerospace کے اشتراک سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ لی جیان-1 راکٹ کے ذریعے نومبر 2024 میں لانچ کیا گیا، جو چینی کمرشل خلائی صنعت کی پہلی بین الاقوامی خدمت تھی۔