پرسوں جب پی آئی اے کہ دو ملازمین شہید کیے گئے تو موقع پر موجود گواہوں نے الزام لگایا کہ ان مظاہرین کو رینجرز نے قتل کیا ہے۔ رینجرز کے اعلی افسر سے رابطہ کیا تو موصوف نے فرمایا کہ یہ دونوں افراد 9mm پسٹل سے قتل کیے گئے ہیں جبکہ ہماری فورس تو بھاری ہتھیاروں سے مسلح تھی۔ کل شہید عنایت رضا کی فیملی ایک وڈیو منظرعام پر لے آئی جس میں پستول سے مسلح ایک رینجرز اہلکار مظاہرین پر حملہ آور ہورہا تھا۔ کل ہی شہید مظاہرین کی پوسٹمارٹم رپورٹ منظرعام پر آگئی جس میں ان کی شہادت کی وجہ کلاشنکوف کی 20 فٹ سے ماری گئی گولیاں بتائی گئیں۔ دوبارہ رینجرز ذرائع سے استفسار کیا کہ حضور یہ تو کلاشنکوف کے خول نکلے ہیں تو موصوف نہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ رینجرز تو کلاشنکوف استعمال ہی نہیں کرتی ہے۔ اب دوبارہ مظاہرین کو "ڈیل” کرتے رینجرز کی جائے وقوعہ پر ریکارڈ کی گئی مزید وڈیوز کا جائزہ لیا تو وہاں درجنوں رینجرز اہلکار کلاشنکوفیں تھامے نظر آئے۔ ہم نے ناقابل "یقین” آنکھوں کے ساتھ ان مناظر کو دیکھا اور گوگل ویب سائٹ پر دو الفاظ Rangers Karachi لکھ کر Images select کر کے سرچ پر کلک کیا تو سیکڑوں تصاویر ہمارا منہ چڑا رہی تھیں جن میں رینجرز اہلکار کراچی کے مختلف مقامات پر تعیناتی اور مختلف آپریشنز میں حصہ لیتے ہوئے کلاشنکوف کا استعمال کرتے نظر آئے۔
بات یہیں نہیں رکی رینجرز کے انہی ذرائع نے میڈیا کو گمراہ کرنے کے بعد کمال ہوشیاری سے رینجرز کے بریگیڈئیر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی قائم کردی جو مجرمان کا تعین کرے گی۔ یہ سنا تو دل میں شاعر سے معذرت کے ساتھ خیال آیا کہ "تم جرم کرو ہو یا کرامات کرو ہو؟” اب اتنے جھوٹ بولنے کے بعد بھی کیا کسی کو شک ہے ایک ادارہ جس پر مقتولین کے لواحقین اور عینی شاہدین الزام لگا رہے ہوں کیا اس کی اپنی قائم کردہ کمیٹی جس کی سربراہی بھی اس کا اپنا آفیسر کررہا ہے جانبدار نہیں ہوگی؟ اور کیا اس کا "مینڈیٹ” صرف کلین چٹ کی فراہمی نہیں ہوگی؟ ہائے مالک کن کے حوالے کیا ہے ہمیں اور پھر روز محشر ہمی سے حساب بھی لے گا۔
تازہ ترین پیشرف میں رینجرز نے وڈیو شواہد کا مقابلہ وڈیو سے کرنے کے لیے ایک وڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے ایک شخص کے سر پر دائرہ لگا رکھا ہے جس کا آدھا چہرہ رومال لپیٹ کر بنائے گئے عارضی نقاب میں چھپا ہوا ہے جس کو رینجرز نے شرپسند گردانتے ہوئے اس کے بارے میں معلومات کی اپیل کی ہے کیونکہ بقول رینجرز، فائرنگ میں یہ "بھی” تو ملوث ہوسکتا ہے۔ رینجرز کی اس کاوش کا بھی جائزہ لیا تو اس نقاب پوش کی تھیوری کے غبارے سے پی آئی اے ورکرز کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سہیل بلوچ نے ہوا نکال دی اور کہا کہ وڈیو میں موجود نقاب پوش پی آئی اے کا ملازم ہے جس نے آنسو گیس سے بچنے کے لیے رومال کو آنکھوں اور چہرے کہ گرد لپیٹ رکھا تھا۔ جبکہ یہ مشکوک شخص بظاہر غیر مسلح بھی تھا اور کلاشنکوف جیسی آٹومیٹک رائفل جیب میں تو چھپائی نہیں جا سکتی۔ ویسے بھی مظاہرین کو ائیرپورٹ سے دور رکھنے کے لیے تعینات رینجرز کے متعدد اہلکار بھی کالے نقاب پہنے نظر آئے جو کم از کم عقل سمجھنے سے قاصر ہے کہ نہ تو وہاں کسی منشیات فروش مافیا نہ ہی کسی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم کے خلاف کوئی خفیہ چھاپہ مار کاروائی ہورہی تھی جو ہمارے محافظوں کو چہرے چھپانے کی ضرورت پیش آئی۔ کیسی ریاست ہے ہماری جہاں لیاری گینگ وار کا مبینہ گینگسٹر عزیر بلوچ تو گرفتاری کے وقت استری شدہ صاف ستھرے بوسکی سوٹ زیب تن کیے نظر آتا ہے لیکن اس کو گرفتار کرنے والے رینجرز نے کالے نقاب سے چہرے چھپا رکھے تھے۔
ابھی ابھی رینجرز کی طرف سے رابطہ کرکے نئی ترجیح پیش کی گئی ہے کہ دیکھئے وہاں دو گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی لیکن ہسپتال میں دو لاشوں کے ساتھ چار گولی زدہ زخمی بھی لائے گئے ہیں اس لئے اگر ہم نے دو کو گولی ماری تھی تو باقی چار کو کس کی گولی لگی؟ یعنی جس نے چار کو زخمی کیا اسی کی گولی سے دو لوگ شہید بھی ہوئے۔
بات صرف اتنی ہے جتنی توانائی میڈیا کو پل پل بدلتے موقف کے ساتھ بری الزمہ ہونے پر لگائی جارہی ہے اس سے کیا ہی اچھا ہو رینجرز ایک غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کریں اور اس کمیشن کے آگے خود بھی پیش ہوں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جب آپ نے جرم کیا ہی نہیں تو آپ کو تو اپنی بے گناہی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس انداز میں بری کروانا چاہیے جس بریت کی کوئی ساکھ بھی ہو۔
برائے مہربانی ایک طرف میڈیا کو بار بار رابطہ کرکے اپنے آپ کو کسی بھی انکوائری سے قبل بے گناہ قرار دے کر اور دوسری طرف اپنے ہی ماتحت بریگیڈئیر کی سربراہی میں انکوائری کے احکامات دے کر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے تعاقب میں آنے والے امریکی فوجیوں پر بننے والے انکوائری کمیشن کی یاد مت تازہ کریں جب جنرل کیانی نے اس جنرل کی سربراہی میں کمیشن کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا جو دراصل خود اس بدترین ناکامی کا براہ راست ذمہ دار تھا جس پر بعدازاں میڈیا نے تنقید کی تو اس کمیشن کر تحلیل کرکے سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا گیا۔
یہ کوئی دلیل نہیں کہ رینجرز کیوں نہتے مظاہرین پر گولی چلائے گی؟ جناب ماضی قریب میں سرفراز شاہ قتل کیس میں ایک نہتے کم عمر نوجوان کو رینجرز کے سپاہی نے پارک میں کیمروں کے سامنے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا اور سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس لینے پر بادل ناخواستہ آپ کو اس کو پولیس کی تحویل میں دینا پڑا۔ لیکن جس طرح اس مقتول نوجوان کے غریب خاندان کو دباو ڈال کر قاتل رینجرز اہلکار کو معافی دلوائی گئی وہ بھی آپ کی فورس کی سنہری تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح ایک ٹیکسی ڈرائیور اپنی دس ماہ کی معصوم بچی کو دوا دلوانے کلینک لے کر جارہا تھا لیکن آپ کی ہی رینجرز کے اہلکار نے اس کی فرنٹ سیٹ پر دس ماہ کی معصوم بچی کو دیکھنے کے باوجود اس معصوم کی نظروں کے سامنے اس کے محنت کش باپ کو گولی مار کر شہید کرکے شجاعت کا نیا باب رقم کیا تھا۔
آپ کی سنہری تاریخ کے ان اوراق کا حوالہ دینے کا مقصد نہ تو رینجرز کی تذلیل ہے نہ ہی آپ کو ان دو شہیدوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے بلکہ صرف یہ باور کروانا ہے کہ قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں اور اگر آپ کی فورس بے گناہ ہے تو اس کو کسی غیر جانبدار اور قابل ساکھ عدالتی کمیشن سے یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے دیں۔ یہ نہ صرف آپ کے ادارے کی عزت میں اضافہ کرے گا بلکہ اگر کوئی آپ کے ادارے کے خلاف سازش کررہا ہے تو اس کے منہ پر بھی طمانچہ بن کر لگے گا۔ آپ خود سے یہ تاصر دینے کی کوشش مت کریں کہ آپ کے آپریشن سے خائف پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت یا متحدہ قومی موومنٹ اس سازش کے پیچھے ہے بلکہ ایک غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن کو اس کا تعین کرنے دیں کہ اس سانحہ کے پیچھے کوئی سازش چھپی ہے یا خود کو احتساب سے بالاتر سمجھنے والی سوچ کے حامل رینجرز اہلکار کا انفرادی فعل۔
اسد طور
اسد علی طور ڈان، کیپیٹل ٹی وی اور اے آر وائی نیوز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔
پیشہ کے لحاظ سے پروڈیوسر ہیں اور فارغ وقت میں بلاگنگ بھی کرتے ہیں۔
اج کل اے آر وائی نیوز پر پروگرام آف دی ریکارڈ پروڈیوس کررہے ہیں