انقلابِ ایران اور اتحاد امت کی کوششیں

11فروری 1979ء کو ایران کا اسلامی انقلاب امام سید روح اللہ الموسوی الخمینی کی قیادت میں کامیاب ہوا۔ یہ اپنی نوعیت کا عصر جدید میں منفرد انقلاب تھا۔ اس انقلاب نے سرمایہ داری اور اشتراکی نظام کی گرفت میں بٹی دنیا میں ایک ہمہ گیر ارتعاش برپا کردیا۔ یہ انقلاب معاشی یا کسی اور مادی بنیاد پر رونما نہیں ہوا تھا۔ یہ استبداد و استعمار کے خلاف اور اخلاقی و انسانی اقدار کے پامالی کے خلاف ایک انقلاب تھا جس کی قیادت روحانی شخصیات کررہی تھیں جن میںقائد انقلاب امام خمینی سب سے آگے تھے۔

یہ انقلاب چونکہ دین اسلام کی آفاقیت پر یقین رکھتا تھا اور اسی آفاقیت کا علمبردار بھی تھا، اس لیے وحدت اسلامی کا نظریہ اس کے جوہر میں موجود تھا۔ قرآن و سنت مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کے ترجمان اور مبلغ ہیں۔ قرآن مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیتا ہے اور تفرقے سے روکتا ہے۔ سنت مسلمان کو حکم دیتی ہے کہ وہ اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو اذیت نہ پہنچائے۔ سنت کا تصور پوری امت مسلمہ کے لیے یہ ہے کہ وہ جسم واحد کی طرح ہے۔

جب قرآن و سنت کی یہ تعلیم ہو تو ایک حقیقی اسلامی انقلاب اور اس کی قیادت کو امت واحدہ اور کلمہ توحید کا پرچم بردار ہونا ہی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی نے پہلے دن سے مسلمانوں کو اتحاد ووحدت کا پیغام دیا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد جب ایران کا اسلامی آئین تشکیل دیا گیا تو اس کے اندر اتحاد و وحدت امت کو ایران کی ریاست کے نصب العین کے طور پر سمو دیا گیا۔ چنانچہ ایران کے آئین کی اصل 11میں کہا گیا ہے:

بہ حکم آیہ کریمہ ی ” اِنَّ ھٰذِہ اُمَّتُکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ” ھمہ ی مسلمانان یک امتند و دولت جمھوری اسلامی ایران موظف است سیاست کلی خود را بر پایہ ی ائتلاف و اتحاد ملل اسلامی قرار دھد و کوشش پیگیر بہ عمل آورد تا وحدت سیاست، اقتصادی و فرھنگی جھان اسلام را تحقق بخشد”۔

قرآن حکیم کی آیت:” یقیناً تمھاری یہ امت امت واحدہ ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔” کی رو سے مسلمان ایک امت ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی کلی سیاست کو اسلامی اقوام کے اتفاق و اتحاد کی بنیاد پر تشکیل دے اور مسلسل کوشش کرے کہ عالم اسلام کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں سیاسی وحدت اپنی عملی شکل اختیار کر سکے۔

امام خمینی نے بہت شروع ہی میں اپنے پروگرام کا اعلان ان الفاظ میں کردیا تھا:

”ہمارا پروگرام اسلام ہی کا پروگرام ہے اور وہ ہے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے مابین وحدت کلمہ ، ساری دنیا میں تمام اسلامی مکاتب فکر کے مابین بھائی چارہ، دنیا بھر میں ساری اسلامی حکومتوں کے مابین ہم آہنگی۔”

دوسری طرف جن قوتوں کو ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے شکست سے دو چار ہونا پڑا وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ اگر اس انقلاب کا پیغام بغیر کسی رکاوٹ کے پوری دنیا میں پہنچ گیا تو مسلمان اور دیگر ستم رسیدہ قومیں اٹھ کھڑی ہوں گی۔ چنانچہ انھوں نے اس انقلاب کے خلاف طرح طرح کی سازشیں شروع کردیں۔ ان کی سب سے خطرناک سازش شیعہ سنی اختلافات کو بھڑکانا اور اس بنیاد پر خاص طور پر اہل سنت عوام کو اس انقلاب کے پیغام سے برگشة کرنا تھا۔ امام خمینی بھی ان کی ان سازشوں پر نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے بارہا برادران اہل سنت کو اس امر کی طرف متوجہ کیا۔ ایک مقام پر وہ کہتے ہیں:

” اسلامی ممالک میں رہنے والے برادران اہل سنت جان لیں کہ بڑی شیطانی طاقتوں سے وابستہ حکمران اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں۔ ضروری ہے کہ مسلمان ان سے دوری اختیار کریں اور ان کے نفاق پیدا کرنے والے پراپیگنڈا پر کان نہ دھریں۔ ”

دشمنوں نے فقط مذہبی عنوان سے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا پروگرام نہیں بنا رکھا بلکہ وہ نسلی اور جغرافیائی بنیادوں پر بھی ہمیں تقسیم در تقسیم کرنے کی سازش کیے ہوئے ہیں۔ امام خمینی کی اس حقیت پر بھی نظر تھی چنانچہ انھوں نے اس بارے میں فرمایا:

” بڑی طاقتوں اور ان سے وابستہ افراد کی سازش ہے کہ اسلامی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مابین اخوت پیدا کی ہے اور مومنین کو”اخوة” کہہ کر یاد فرمایا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ترک قوم، کرد قوم، عرب قوم اور فارس قوم کے نام پر انھیں ایک دوسرے سے جدا کردیں بلکہ انھیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں اور یہ کام کاملاً راہ اسلام اور راہ قرآن کریم کے برخلاف ہے۔”
دشمن کبھی شیعہ اور سنی کے عنوان سے تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے اور آج بھی کررہے ہیں اور کبھی حنفی و حنبلی اور جعفری و شافعی کا اختلاف ابھارتے رہے۔ اس اختلاف کی حقیقت کی طرف امام خمینی نے توجہ دلائی۔ انھوں نے فرمایا:

” مسلمانوں میں سے ایک گروہ شیعہ ہے، ایک گروہ سنی ہے، ایک گروہ حنفی ہے، ایک گروہ حنبلی ہے اور ایک گروہ اہل حدیث ہے۔ اس طرح بات کرنا پہلے دن سے ہی درست نہ تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں سب لوگ اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اسلام کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں، اس میں ایسے مسائل زیر بحث نہیں آنے چاہئیں۔ ہم سب بھائی ہیں اور اکٹھے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کے علماء نے ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیا اور آپ نے اپنے علماء کی تقلید کی اور آپ حنفی ہو گئے۔ دوسرے گروہ نے شافعی طریقے کے فتویٰ پر عمل کیا جب کہ ایک اور گروہ نے امام صادق علیہ السلام کے فتویٰ پر عمل کیا، یہ لوگ شیعہ ہو گئے۔ یہ بات اختلاف کی وجہ نہیں۔ ہمیں آپس میں اختلاف یا تضاد نہیں رکھنا چاہیے۔ ہم سب آپس میں بھائی ہیں۔ شیعہ سنی بھائی ہر طرح کے اختلاف سے پرہیز کریں۔ آج ہمارے درمیان اختلاف فقط ان کے فائدے میں ہے جو شیعہ مذہب پر اعتقاد رکھتے ہیں، نہ حنفی مذہب اور نہ کسی اور اسلامی طریقے پر۔ وہ چاہتے ہیں کہ نہ یہ رہیں اور نہ وہ رہیں۔”

امام خمینی ہی نے نہیں انقلاب اسلامی کے دیگر قائدین نے بھی ہمیشہ وحدت امت اور اتحاد مسلمین پر زور دیا۔ چنانچہ عظیم مفسر قرآن اور الٰہیات اسلامی کے نامور عالم علامہ سید محمد حسین طباطبائی فرماتے ہیں:
” ہمیشہ اس حقیقت کا ذکر کرتے رہنا چاہیے کہ شیعہ اور سنی کا ا ختلاف صرف فروع میں ہے اصول دین میں وہ کوئی اختلاف نہیں رکھتے، یہاں تک کہ فروع ضروریہ جیسے نماز، روزہ،حج،جہاد وغیرہ میں بھی کوئی اختلاف نہیں اور سارے مسلمانوں کا قرآن و کعبہ ایک ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ عالم اسلام میں تدریجاً اس حقیقت کا ادراک کیا جارہا ہے۔ شیعہ علماء نے اسی وجہ سے تقریب مذاہب اسلامی کا نظریہ پیش کیا تھا اور شیخ الازہر نے بھی اسے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ انھوں نے اس طرح دنیا کو شیعہ اور سنی کے مکمل دینی اتفاق سے آگاہ کردیا ہے۔”

امام خمینی اور علامہ طباطبائی کے قابل افتخار شاگرد مفکر اسلام استاد مرتضیٰ مطہری بھی اسی پیغام کا پرچار کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں:

”مسلمانوں کی تمام مصیبتوں کی جڑ اور ان کی عظمت و شوکت کے خاتمے کا سبب یہی اختلاف اور تفرقہ ہے بے شک مسلمانوں کو سب سے بڑھ کر اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کے دیرینہ اختلافات ہیں جن سے دشمن نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا ہے۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے