جاہلانہ روایات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لمحہ فکریہ

علم جہالت کو مٹاتا ہے اور انسان کو شعور بخشتا ہے ۔ ہمارے یہاں دینی و
عصری تعلیمی ادارے ہر جگہ موجود ہیں ۔ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے ۔ تقریباََ ہر محلے میں مسجد ومدرسہ ، اسکول وکالج اور ہر شہر میں جامعات کی شاخیں بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے موجود ہیں جہاں سے سالانہ لاکھوں لوگ علم سے بہرہ ور ہو کر نکلتے ہیں اور معاشرے میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔

مدارس سے بھی طلباء کی بڑی تعداد ہر سال علماء حفاظ اور قراء بن کر خدمتِ دین میں اپنا حصہ ملاتی ہے ۔

مگر المیہ یہ ہے کہ ان سب تعلیمی سلسلوں کے باوجود ہمارے معاشرے میں جاہلانہ رسوم و رواج رائج ہیں اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کا حصہ ہے ۔ اس معاشرے میں ’’پِیر صاحب‘‘ کے حکم پر ماں اپنے جواں سال بیٹے کو قتل کر دیتی ہے ۔ معصوم بچی کو ’’پِیر صاحب ‘‘ یہ کہہ کر جلا دیتے ہیں کہ اس سے جادو کا اثر ختم ہو جائے گا ۔انہیں کے چنگل میں آکر خاندان تباہ ہو رہے ہیں ، رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ، باہمی نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں ۔ اب بھی کالی بلیوں کو خوف اور نحوست کا سبب جانا جاتا ہے ، صفر کا مہینہ آج بھی منحوس ہے ۔ عورتوں کو ونی کیا جا رہا ہے ، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور درندوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔ غربت و
جہالت کے سبب اولاد فروخت کی جاتی ہے یا قتل کر دی جاتی ہے ۔

بے روزگاری ، گھریلو حالات ، تعلیم اور ’’محبت ‘‘ میں ناکامی کے سبب خودکشیاں معمول بن چکی ہیں ۔ اپنے پورے کنبے کو ذبح کر دیا جاتا ہے یا پھر زہر دے دیا جاتا ہے ۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی شروع ہوتی ہے اور قتل و قتال پر آکر رکتی ہے ۔

مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں اور بیویاں غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہیں ۔ بیماریوں کا سبب جن بھوت سمجھے جاتے ہیں اور مصائب کا سبب جادو اور تعویذ ۔ پھر علاج کے بجائے عاملوں اور نام نہاد پیروں فقیروں کے پاس لے جایا جاتا ہے اور علاج نہ ہونے کے سبب لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔

یہ سب ایک مہذب معاشرے کی علامتیں نہیں ہیں بلکہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم آج بھی جاہلانہ روایات سے پیچھا نہیں چھڑا سکے ۔ تعلیمی اداروں کے ہوتے ہوئے بھی ہم میں جاہلیت جیسی روایات کیوں ہیں ؟

وجہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات ہی کچھ اورہیں ، تعلیم علم کے حصول کے لئے نہیں بلکہ دولت کے حصول کے لئے فراہم کی جاتی ہے اور حاصل کی جاتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ہم چند ٹکوں کے عوض ڈگریاں خرید کر نوکری حاصل کرتے ہیں اور پھر دولت کمانا ہی ہمارا واحد مقصد ہوتا ہے نہ کہ ملک ، مذہب اور قوم کی خدمت کرنا ۔ اقتدار کی مسندوں پر براجمان عوامی نمائندوں کی ترجیحات مہنگے منصوبے ہیں جن سے انہیں بھی ’’کچھ ‘‘ حاصل ہو کہ بہر حال وہ عوامی نمائندے ہیں ، تو عوام کی ترجیح دولت ہے تو ان کے نمائندوں کامذہب اور ملک سے کیا لینا دینا ۔

اہل اقتدار کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جرگے اور پنچائتی
نظام پر کڑی نظر رکھیں اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں ، جعلی
پِیروں اور عاملوں کو سخت سزائیں دیں ۔ تعلیمی نصاب میں ان فرسودہ توہمات کے سد باب کے لئے مضامین شامل کئے جائیں ۔ اہلِ منبر کی ترجیحات بھی اپنی جماعت ، فرقے اور مسلک کا ’’دفاع ‘‘ ہے انہیں اس سے فرصت ملے گی تو ادھر نظرِ التفات کریں گے ۔

رونا جعلی پِیروں کا نہیں بلکہ اصلی پِیروں کا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں ، انہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے کی ضروررت ہے ۔ اہل منبر کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو خدا کے نزدیک کریں تا کہ وہ جعلی عاملوں کے پاس جا کر اپنی عزت و آبرو اور اولاد قربان نہ کریں ۔ در در کی ٹھوکریں کھانے کی بجائے ایک در پر اپنے مسائل پیش کریں اور مصائب سے تنگ آکر اپنے بچوں کے گلے کاٹنے کے بجائے ان پر صبر کریں اور ان سے چھٹکارا پانے کے لئے جدو جہد کریں ۔ کافروں اور زندیقوں کی پہچان سے پہلے انہیں اللہ کی پہچان کرائیں تا کہ وہ خودکشیاں کرنے کے بجائے اپنی مشکلات کو برداشت کریں اور اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی تدبیر کریں ۔

تعلیم کامقصد علم کا حصول ہو نہ کہ
دولت کا اور ترجیح اپنی ذات نہ ہو بلکہ ملک مذہب اورقوم ہو ۔ عوام کو اپنے
ان فرسودہ خیالات اور روایات کو ترک کرنا چاہئے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے