"یہودی کی پی ایچ ڈی اسلام پر”

بدقسمتی سے ہمارے ہیں من گھڑت اور سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلانے کا رواج ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ غلط معلومات سے دوسروں کی رائے تبدیل ہو سکتی ہے اگر پہلے وہ ٹھیک رائے رکھتا ہو تو ہو سکتا ہے ہماری من گھڑت اور سنی سنائی بات سے وہ اپنی رائے تبدیل کر کے غلط رائے قائم کر لے۔ اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے غلط اور صحیح کی تمیز انسان کو ضرور ہوتی ہے۔ لیکن شیطان کا غلبہ ہونے کی وجہ سے پھر بھی ہم غلط کام کو صرف اسی وجہ سے اپنا لیتے ہیں کیونکہ اس میں ہمیں اپنا فائدہ نظر آتا۔ اللہ ہمیں ایسے کاموں سے دور رکھے۔الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اس پر ہمیں فخر ہے لیکن ہمارے بہت سے مسلمان بھائی اسی پر فخر کرتے ہیں اوراکثر اپنے معمولات کے کام شریعت سے متصادم کرتے ہوے نظرآتے ہیں۔ صرف یہی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں بس قیامت کے دن ہماریابیٹرا پار ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایک طالب علم ہونے کے ناطے ہر وقت کوشش کر تا ہوں کہ اسلام کی تعلیمات کو پڑھا جائے اور قرآن پاک جو مکمل ضابطہ حیات ہے اس سے استفادہ کیا جائے اور احادیث کی روشنی میں کسی بھی موضوع پر اسلام کی روح کے مطابق اپنی رائے قائم کی جائے۔ امام ابو حنیفہ ،امام مالک ، امام شافعی کے بعد امام احمد بن حنبل ہیں جو کہ اہل سنت مکتبہ فکر سے تھے اور 164ھ، 781 ء بغداد میں پیدا ہوئے ۔ خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی وجہ سے آپ نے بہت کوڑے کھائے لیکن غلط بات کو نہ مانا۔ انہوں نے حق بات کی خاطر جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اس کی بنا پر اتنی ہر دلعزیزی پائی کہ لوگوں کے دلوں میں حکمران بن گئے۔ ان کے انتقال پر آٹھ لاکھ سے زیادہ اشخاص نے ان کی نماز جنازہ بغداد میں ادا کی ۔ امام احمد بن حنبل کہا کرتے تھے کہ ” اے ظالم حکمرانوں کون حق پے ہے تم ہویا ہم اس کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے” ۔موجودہ حالات میں بھی ان کی یہ بات اپنی مثال آپ ہے۔

فرانس سے ایک مسلمان بھائی ضیاء صاحب نے اپنا ایک واقعہ رقم کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ” میں ایک فرانس میں رہنے والا مسلمان ہوں ایک دن میں ایک کافی شاپ میں بیٹھا کافی پی رہا تھا کہ میرے برابر والی میز پر ایک داڑھی والا شخص بیٹھا تھا جو بار بار مجھے دیکھتا تھا میں اٹھ کر اس کے پاس جا بیٹھا اور میں نے اس سے پوچھا کہ آپ مسلمان ہیں ؟ وہ ہنس کر بولا نہیں میں اردن کا رہنا والا ہوں اور ایک یہودی ہوں میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں میں نے پوچھا تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو؟ وہ شرماتا ہوا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں ۔ میں نے قہقہہ لگایا اور کہا تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی ؟ کافی لمبا سانس لینے کے بعد وہ بولا میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب تھیسس(پیپر) لکھ رہا ہوں۔

میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہیں؟ اس نے دائیں بائیں دیکھنے کے بعد آہستہ سے کہا کہ میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ پھربھی برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی بھی انگلی برداشت نہیں کرتے یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا ۔ ضیاء صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو بر بیٹھ گیا ۔ وہ بولا میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے یہ جب اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی پاک ﷺکی ذات تھی آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں ، آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کر ہی جاتے ہیں لیکن آپ جونہی ان کے رسول اللہ ﷺ کا نام غلط لہجے میں لیں گے یہ تڑپ اٹھیں گے اور اسکے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون ہوں یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے ۔

ضیاء صاحب لکھتے ہیں کہ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بولا میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسول اللہ ﷺ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔ ااگر اسلام کو ختم کرنا ہو تو پہلے مسلمانوں کے دلوں سے ان کا رسول نکالنا ہو گا۔ ضیاء صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اس یہودی نے یہ باتیں کیں اور آہستہ سے کافی کا مگ نیچے رکھا اپنا تھیلا اٹھایا ، کندھے پر رکھا اور اٹھ کر چلا گیا "۔

ضیاء صاحب کے اس قصہ سے حاصل کیا ہے؟ حاصل یہ ہے کہ اس یہودی نے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا۔ کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے ۔ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی(اللہ نہ کرے کہ کبھی ختم ہو) اس دن ہم میں اور غیر مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اللہ پاک تا قیامت ہم سب کی رسول اللہ ﷺ سے محبت قائم و دائم رکھے۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے