نجی ملکیت کی جدلیات

ہر واقعہ کسی دوسرے واقعہ سے منسلک ہے، ہر راز کسی دوسرے راز میں پنہاں ہے، ایک بات کسی دوسری بات سے جڑی ہوئی ہے، ہر فکروسوچ کسی دوسری فکروسوچ پر منحصر ہوتی ہےـ زمان و مکان کے واقعات بے ہنگم و بے ربط نہیں ہوتے، ہر عمل کا جواز ہوتا ہےـ ہر جواز کا پس جواز بھی ہوتا ہےـ ہر فلسفیانہ موشگافی کا سیاق و سباق ہوتا ہےـ جواز، وجوہات اور سیاق و سباق کا ادراک ہی انسان کو حقیقی سچائی تک رسائی دیگاـ

مثلا” اقبال کے شعر کا حصہ کہ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں کو دیکھتے ہیں_ محض واہ واہ کرنی ہے تو بات ختم لیکن اگر شرح لازم ہے تو سمجھنا ہو گا عقابی روح کیا ہوتی ہے، کیوں پیدا ہوتی ہے، کیسے پیدا ہوتی ہے اور آخر جوانوں میں ہی اس عقابی روح کی پیدائش کا کیوں ذکر کیا گیاـ وہ کون سے حالات ہیں جو عقابی روح کی پیدائش کو ممکن کرتے ہیں اور کن حالات میں اس روح کی پیدائش لازم ہو جاتی ہےـ کون سے عوامل اس روح کی پیدائش کو روکتے ہیں- یا کون سے عوامل اس روح کی پیدائش کے عمل کو تیز کر دیتے ہیں- یہ سارے سوالات سوچنے، سمجھنے اور فکر کی دعوت دیتے ہیں_

لہذا بات باتوں سے جڑی ہوتی ہے، یہ جڑت مزید جڑتوں کو جنم دیتی ہےـ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا موجودہ سلسلہ ہائے عالم انسانی سکھ میں کمی کر رہا ہے یا اضافہ ہو رہا ہےـ کوئی ذی شعور یہ نہیں بولے گا کہ انسانی سکھ میں اضافہ ہوا ہےـ تکنیکی و سائنسی و تمدنی ترقیاتی اعلانات کے باوجود بیماریوں اور بھوک کے حملے شدت اختیار کرگئے ہیں_ جنگوں اور حادثات کی وجہ سے دنیا لہو لہان ہےـ غربت اور جہالت نے انسانی آبادی کو بند گلی میں لا کر چھوڑ دیا ہےـ نسلی و مذہبی امتیاز اپنی انتہا پہ ہیں_ انگلی کی ایک جنبش انسان کو دنیا کی خبروں سے آشنا کررہی ہے، مگر انسان اپنے ہمسایہ کی حالت سے ناآشنا رہتا ہےـ اسرائیلی فوج فلسطینی بچے کو سینے میں گولی مار دیتی ہے جس کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھے، اور وہی فوجی گھر جاکر اپنے بچوں کے بوسے لیتا ہےـ داعش کے کڑیل جوان دوسرے جوان کی گردن چھرے سے کاٹ ڈالتا ہے کیونکہ وہ شیعہ ہےـ امریکی ڈیزی کتر بم افغانیوں کے جسم کا قیمہ بناتے ہیں کیونکہ دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہےـ ایک شہر میں خوراک کا بڑا ذخیرہ ہے، دوسرے شہر میں بچے، بوڑھے اور عورتیں شاہرات پہ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں- اس ساری واردات کا سیاق و سباق کیا ہےـ

نجی ملکیت ایک جرم ہے خاص طور پر ذرائع پیداوار کی ملکیت، اس جرم کو صحیح ثابت کرنے میں بیسیوں دلائل دئیے جا سکتے ہیں، مگر اس جرم کے نتائج بہت ہی بھیانک اور سنگین ہیں_ نجی ملکیت کی جڑیں ہوس کی زمین میں پیوست ہیں_ ہوس انسان کی ازلی فطرت نہیں ہے، بلکہ غیریقینی اور خوف ہی ہوس کا جواز بن گیا ہےـ مستقبل کے حوالے سے غیریقینی نے انسانوں کو ملکیتوں کی ہوس کا جواز پیش کیاـ ظلم اور بےانتہا ظلم اسی ہوس سے منسلک ہےـ انسان اپنے مفادات کے یقینی تحفظ کیلیے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو ذلیل و رسوا رکھنے پہ تل گیا ہےـ ہوس اور خوف ایک دوسرے میں پیوست ہیں، ایک دوسرے کی وجہ ہیں_ ظلم اور جبر کا مہذب رنگ و روپ نجی ملکیت کے طور پر سامنے آیا ہےـ خاص طور پر نجی ملکیت کا تصور تاریخ انسانی کا مہذب ترین مگر بدترین تصور کہلانے کا حقدار ہے_

غلام داری سے جاگیرداری اور پھر وہاں سے سرمایہ داری کے فروغ نے ترقی و ترویج کی نئی راہیں ڈھونڈ نکالیں، مگر ظلم و جبر کی نئی نئی شکلیں بھی سامنے آئیں_ خوف میں بدتدریج اضافہ ہواـ منافقت اور بذدلی کی نئی نئی تعریفوں سے شناسائی ہوئی_ حقارت اور بیگانگی کو بڑھاوا ملاـ حقائق کی پردہ پوشی ہوتی گئی اور جھوٹ کا دور دورہ ہو گیاـ جانوروں اور درندوں کے جنگلی وصف کو انسانی آبادیوں نے اپنا لیاـ تقسیم در تقسیم کا عمل رواج پکڑ گیاـ ایک خطے میں جو بات جرم، دوسرے خطے میں عمومی بات_ ایک علاقے کے مصدقہ اصول کہیں دوسرے علاقے میں کذب و ریاـ انہی بنیادوں پہ جنگیں اور لڑائیاں، اور خوف سے ملکیتوں کے قلعےـ

اب ایک حادثہ دوسرے حادثے کا جواز بن رہا ہےـ ایک سوچ دوسری سوچ کو جنم دے رہی ہےـ ایک بات بذات خود دوسری بات کی وجہ بن رہی ہے_ نجی ملکیت کی قلعہ بندی کو ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےـ واردات کچھ یوں کہ نجی ملکیت کے قلعے کی کنجیاں انسانوں کی ایک اقلیت کے قبیلے کے پاس ہیں جبکہ ردعمل میں انسانوں کی اکثریت بےچینی کا شکار نظر آتی ہے_

یہ بےچینی محدود اور کبھی وسیع روپ اختیار کر رہی ہےـ مگر وہ وقت دور نہیں جب یہ بےچینی بےانتہا ہو جائے اور حدود کو پامال کردے گی_ نئی جنگ اور نئے حادثات جنم لیں گےـ نئی کشمکش اور نئی جدوجہد کا آغاز ہو گاـ نئی باتیں اور نئی بحثیں شروع ہونگی_ ممکنات میں ہے کہ حادثات کا سلسلہ موجودہ صدی میں ہی انسان کو حقیقی سچائی سے متعارف کروائے گا_

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے