[pullquote]دھرنے والے کتنے مضبوط تھے ؟[/pullquote]
اس مرتبہ جب میں دھرناکوریج کے لیے جب میں ڈی چوک پہنچا توڈیڑھ سال قبل کی نسبت صورتحال ذرا مختلف پائی تھی پہلے مرحلے میں ہی میراٹاکراپولیس اہلکاروں سے ہوا جوقادری اورعمران خان دھرنے کی بانسبت باہمت اورجری نظرآئے جس سے ہمارے اس خیال نے تقویت پکڑی کہ اگرپولیس چاہے توایک دوگھنٹوں میں یہ دھرناختم کرواسکتی ہے . پنڈال کے اندراگرچہ دھرنے والوں کی رٹ اورحکم چلتاہے مگرپنڈال سے باہرسیکورٹی فورسسزپہلے کی نسبت کافی متحرک ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی فورسسزکے لیے یہ بات بھی اطمینان بخش تھی کہ اس سال دھرنے کے شرکا بغیرکسی تیاری کے اچانک منہ اٹھائے ڈی چوک پہنچ گئے تھے جس کی وجہ سے دھرنے والوں کو مختلف مسائل کاسامناتھا ۔ڈی چوک کے شرکا ء چاردن تک مختلف معاملات کے حوالے سے شدیدمشکلات کاشکاررہے شرکا ء کے کھانے پینے کاکوئی مناسب بندوبست نہیں تھا جس کی وجہ سے کئی شرکاء موقع ملتے ہی مسلسل اپنے گھروں کوواپس جارہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ستائیس مارچ کوجب اسلام آبادپرچڑھائی کی گئی تورپورٹ کے مطابق شرکاء کی تعدادپندرہ سے بیس ہزارتھی مگرجب دھرناختم کیاگیاتویہ تعدادبمشکل ہزارسے پندرہ سوتھی ۔
پاکستان سنی تحریک کی طرف سے اگرچہ شرکاء کو کھانافراہم کیاجارہاتھا مگریہ کھانانہایت ناکافی تھا اسی جانب آستانہ عالیہ بھکھی شریف کے سجادہ نشین پیر سید مفتی محمد نوید الحسن شاہ مشہدی نے دھرنے کے آخری دن ایک پریس ریلیزجاری کی جس میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کی طرف سے اہل سنت وجماعت مکتب بریلوی پر شب خون مارنے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں حکومت اتنا ظلم کرے جتنا برداشت کرسکے ۔دھرنے میں لوگ تین دن سے بھوکے ہیں جس کی وجہ سے بےہوش ہو رہے ہیں اور درختوں کے پتے کھا کر گزارا کر رہے ہیں ۔
بھوک اورگرمی کی وجہ سے دھرناشرکاء کابراحال ہوگیاتھا کئی افرادبے ہوش رہے تھے اورمختلف افرادکوہسپتال بھی منتقل کیاگیا اس حوالے سے دھرناختم ہونے کے بعد جمعرات کی اخبارات میں شائع ہوئی ہے ۔
دھرنامنتظمین کی طرف سے جوکھانافراہم کیاجارہاتھا پولیس ان لوگوں کوحراست میں لے رہی تھی ۔ایک موقع پریہ بھی دیکھنے میں آیاکہ دھرناپارٹی بھوک کے ہاتھوں اتنی مجبورہوئی کہ پولیس والوں کے کھانے پردھاوابول دیا اورکھاناچھیننے میں کامیابی کے بعد خوب نعرے بازی کی اورپیٹ کی آگ بھی بجھائی ۔
اس کے ساتھ ساتھ گرم موسم میں پانی کابھی کوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا جوشرکا کھانے پینے کے لیے بلیوایریایادیگرمارکیٹوں کارخ کرتے تھے انہیں قانون نافذکرنے والے ادارے حراست میں لے لیتے تھے ۔
اس مرتبہ دھرناپارٹی کے لیے پچھلے دھرنوں کی طرح آرام کرنے کے لیے بھی کوئی مناسب انتظام نہیں تھا ڈی چوک کے نئے مکین سڑک اورڈی چوک کی سیڑھیوں پرآرام کرتے رہے ، اسی طرح دھرنے میں شریک افرادکوقضائے حاجت کے حوالے سے بھی مسائل کاسامنارہا . زیادہ ترافرادنمازوں کے اوقات میں ڈی چوک میں واقع مسجدکارخ کرتے تھے جہاں کے باتھ رومزکواستعمال میں لایاجاتاتھا مگرمسجدمیں رش کی وجہ سے کچھ لوگ کھلی فضاء کارخ کررہے تھے جس کی وجہ سے ڈی چوک کے اطراف میں تعفن پھیل چکاتھا ۔جس کی بدبوکی وجہ سے دھرنے میں شریک افرادبھی پریشان تھے ۔
دھرنے میں شریک افرادسے جب اس حوالے سے بات کی گئی تواکثرکاکہناتھا کہ چوں کہ ڈی چوک کی طرف مارچ کی کال اچانک دی گئی تھی جس کی وجہ سے ہم انتظام نہیں کرسکے اگرہمیں پتہ ہوتاکہ ڈی چوک میں دھرناہوگا توپھرہم مناسب بندوبست کرکے آتے جس طرح ڈیڑھ سال عمران خان اورطاہرالقادری دھرنے کے شرکا کے لیے انتظامات کرکے آئے تھے۔
ڈی چوک پرپہلی مرتبہ ایسے افرادکاسامناتھا جن میں نہ کوئی نظم وضبط تھا اورنہ ہی یکجہتی ۔سلیقہ مندی تھی نہ تہذیب ،غرضیکہ ایک ایساہجوم تھا جوکسی کے بھی قابومیں نہیں تھا ۔کچرہ اٹھانے والوں کو
آج ڈی چوک سے وہ غلیظ دھرنے بھی صاف کرنے پڑے جو سڑکوں ،دیواروں ،کھمبوں ،بورڈزاورسیڑھیوں پرلکھے گئے تھے ۔
حکومت نے موبائل سروس بندکرکے دھرنے کے شرکا کی پریشانیوں میں اضافہ کردیاتھا کیوں کہ موبائل بندہونے کی وجہ سے ڈی چوک میں موجود افراداپنے کسی رشتے دار،دوست یاقریبی سے رابطہ کرکے کچھ منگوانے کی بھی پوزیشن میں نہیں تھے اوران کے رشتے داروں یادوستوں کوبھی پتہ نہیں کہ ان کے قریبی افراددھرنے میں ہیں یاواپس گھروں کوآگئے ہیں. اس وجہ سے دھرنے والے جھنجلاہٹ کاشکارہوچکے تھے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے رشتے داربھی شدیدقسم کی پریشانی میں مبتلا تھے۔جومظاہرین گرفتارہوئے تھے ان کے ورثاء بھی ایک اورقسم کی پریشانی میں مبتلاء تھی انہیں یہ تک نہیں پتہ چل رہاتھا کہ کون سابندہ کون سے تھانے میں بند ہے ؟
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کچھ قائدین سٹیج سے اترگاڑیوں میں بیٹھ کرقریبی دوستوں کے پاس کھانابھی کھاآتے تھے اورنہادھوکرفریش ہوکرواپس آتے تھے مگردھرنے میں شریک افرادنہایت خستہ حال تھے ۔
میں نے دھرنے والی جگہ پرکئی چکرلگائے. دھرناقائدین سے گفتگوکی مجھے یہ صاف محسوس ہورہاتھا کہ شرکا ء میں نہ صرف خوف تھا بلکہ سخت فسٹریشن بھی تھی، یہی وجہ تھی کہ شرکاء ہرایک سے بدزبانی کرتے نظرآئے ،ہیلی کاپٹرکی پروازوں کودیکھ کرجوتے ان کی طرف اچھا لتے
[pullquote]حکومت نے دھرناپارٹی کے ساتھ معاہدہ کیوں کیا؟[/pullquote]
یہ وہ حالات تھے کہ جس میں حکومت نے دھرناپارٹی کے ساتھ مذاکرات کیے حالانکہ حکومت کے پاس اس دھرنے کوختم کرنے کے لیے مکمل انتظام موجودتھا جس کا وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے گزشتہ روز ذکربھی کیاتھا مگرحکومت نے اس کومذاکرات کے ذریعے ختم کرناکیوں ضروری سمجھا اوردھرناپارٹی کے ساتھ معاہدہ کیوں کیا ۔۔؟
یہ وہ سوال ہے جوہرسنجیدہ آدمی پوچھ رہاہے ۔؟حالانکہ دھرناپارٹی بہرصورت دھرنے سے جان چھڑاناچاہتی تھی دھرنااگرختم نہ کیاجاتاتوایک آدھ دن میں یہ دھرناخود بخود ختم ہوجاتا اوراس دھرنے کادھڑن تخت ہوجاناتھا ۔دھرناقائدین اس خفت سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں ماررہے تھے اورہرصورت فیس سیونگ چاہتے تھے ۔چنددن قبل جس شاہ اویس نورانی سے دھرناپارٹی مطالبات نہ ماننے پرناراض ہوئے تھے اسی کوثالثی کے لیے اپیل کی جارہی تھی ۔
ان حالات میں حکومت دھرناپارٹی کوخفت اورشرمندگی سے بچانے کے لیے فرشتہ بن کرمیدان میں آئی ۔دھرناقائدین اتنی جلدی میں تھے کہ اپنے مطالبات تودرکناراصل ایشوکوبھی پس پشت ڈال کرچلتی بنی ۔دھرناقائدین نے حکومت پرواضح کردیاتھا کہ جلدازجلدہمیں فیس سیونگ دیں ورنہ ہمارے لیے مزید،،بھرم ،،رکھنامشکل ہوجائے گا ۔
[pullquote]دھرناپارٹی ممتازقادری کوبھی بھول گئی ؟[/pullquote]
دھرناپارٹی نے جس کے نام پریہ تحریک شروع کی تھی جب وقت قیام آیاتویہ نادان سجدے میں گرپڑے ۔ممتازقادری کی پھانسی کے بعد شروع ہونے والی تحریک کوخواجہ سعدرفیق کے گھر دفن کردیا گیا . حکومت اورتحریک لبیک یارسول اللہ کے درمیان طے پانے والے معاملے (معاہدہ نہیں )میں ممتازقادری کے حوالے سے مطالبات مکمل طورپرغائب کردیئے گئے . کہیں بھی ممتازقادری کا تذکرہ تک نہیں کیاگیا.
تحریک لبیک یارسول اللہ نے جب لیاقت باغ سے اسلام آبادکی طرف مارچ کیا توان کے مطالبات میں سب سے اہم مطالبات ملک ممتازقادری کے حوالے سے تھے جس میں پہلا مطالبہ یہ تھا کہ
ممتازقادری کو قومی شہید(سرکاری سطح پر)قراردیاجائے ،
(2)میڈیامیں ممتازقادری کوشہیدلکھا جائے ۔
(3)اڈیالہ جیل کے جس سیل میں ممتازقادری اسیرتھے اسے قومی ورثہ قراردیاجائے اوراس سیل میں ممتازقادری کے نام سے لائبریری قائم کی جائے
مگرحکومت نے ممتازقادری کے حوالے سے کوئی بھی مطالبہ ماننے سے انکارکردیاہے اورصاف لفظوں میں تحریک لبیک یارسول اللہ کے رہنمائوں کوکہاگیاکہ حکومت کسی بھی فردکے حوالے سے کوئی معاملہ قبول نہیں کرے گی ، اجتماعی امورپربات کی جائے جس کے بعد تحریک لبیک یارسول اللہ کے قائدین مشاورت کے بعد ملک ممتازقادری کے ایشوسے دستبردارہوگئے اورحکومت کے ساتھ دیگرمعاملات پربات چیت کے بعد معاہدہ کرکے رخت سفرباندھا. ممتازقادری کو ایک مرتبہ پھرسے بھلادیاگیا مگرممتازقادری کے نام پریہ دوکان اب چلتی رہے گی حکومت بھی خوش اوردھرناپارٹی کوبھی فس سیونگ مل گئی ہے.
طواف کعبہ بھی کیا،،،گنگاکااشنان بھی
راضی رہے رحمان بھی خوش رہے شیطان بھی
[pullquote]دھرنے کو حکومت کی حمایت حاصل تھی ؟[/pullquote]
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دھرناپارٹی کو لیاقت باغ سے نکال کر ڈی چوک پہنچانے میں کہیں ناکہیں حکومت کی مددحاصل تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے اس مارچ کواسلام آبادسے باہرنہیں روکا اورانہیں ڈی چوک تک آنے دینے میں فراخ دلی سے کام لیا۔27مارچ کویہ بھی دیکھنے میں آیاکہ زیروپوائنٹ سے ڈی چوک تک کوئی پولیس اہلکارموجود نہیں تھا ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت درجنوں ایجنسیوں کے ہوتے ہوئے لیاقت باغ کے شرکاء کے عزائم کونہ سمجھ سکے اس سے صاف ظاہرہورہاتھا کہ حکومت نے اپنی طرف سے حکمت عملی تیارکی ہوئی تھی اورشایداس سے اوپرکے چندلوگ ہی واقف تھے ۔
[pullquote]حکومت اس کے پیچھے ایک گیم اورپلان ترتیب دے چکے تھی اوردھرناپارٹی بھی حکومتی ،،جھانسے ،،میں آچکی تھی [/pullquote]
ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ حکومت پرعسکری اداروں نے واضح کردیاتھا کہ بس بہت ہوگیاہے ڈی چوک میں فوج کے خلاف مزیدگالیاں برداشت نہیں کی جائیں گی . یہی وجہ ہے کہ اس پیغام کے بعدوزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے قوم سے خطاب کیا اورمذہب وفرقہ کے نام پرتحریک چلانے والوں کو انتباہ کیا اوران کے خلاف سخت زبان استعمال کی ،،حالانکہ اسی دن را کے ایجنٹ کی گرفتاری کاایک گرم ایشوبھی وزیراعظم کے پاس تھا مگروزیراعظم نے دھرناپارٹی کواشاروں اشاروں میں دھمکی دے کراپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ۔
یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ کو میڈیاپرآناپڑا اوردھرناپارٹی کوالٹی میٹم دیا ۔چوہدری نثارعلی خان کے الٹی میٹم کے بعد وہ قوتیں متحرک ہوئیں جن کاکرداراس موقع کے لیے رکھاگیاتھا ۔
ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ اس دھرنے کے ذریعے حکومت نے جہاں بہت سے حساب برابرکیے ہیں وہاں بہت کچھ حاصل بھی کیاہے ۔ڈیڑھ سال قبل والے دھرنوں میں ،،ایمپائر،،کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی اورنہ ہی کسی نے تقریرکی بلکہ قادری اورخان کے دھرنوں میں براہ راست وزیراعظم کے خاندان ،ان کی ذات ،ان کے وزاراء اورحکومت کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی تھی مگراس مرتبہ کے دھرنے میں قائدین نے براہ راست عسکری اداروں کونشانہ بنایا جس کے متعلق وفاقی وزیرداخلہ نے اشارہ بھی کیاتھا کہ ہم نے ویڈیوزکی صورت میں ثبوت حاصل کرلیے ہیں ۔
[pullquote]حکومت نے کیاسیاسی مفادحاصل کیا؟[/pullquote]
ممتازقادری کوپھانسی دینے کے بعد مذہبی جماعتوں اورخاص کرکے بریلوی مکتبہ فکرکی طرف سے جس سخت ردعمل کاسامناتھااورجوخلیج پیداہورہی تھی حکومت نے کمال حکمت عملی سے ا س خلیج کوپاٹ لیاہے اورسخت ردعمل کونرم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے.
فروری کی آخری تاریخ کوجب حکومت نے ملک ممتازقادری کوپھانسی کے پھندے پرلٹکایاتوعوام ،مذہبی جماعتوں اورخاص کرکے بریلوی مکتبہ فکرکی طرف سے سخت ردعمل آیاتھا . بریلوی مکتبہ فکرزیادہ ترن لیگ کااتحادی رہاہے اوراس وقت بھی اہم گد ی نشین حضرات حکومت میں شامل ہیں. پہلی مرتبہ بریلوی مکتبہ فکرکی طرف سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ اب وقت آگیاہے کہ ن لیگ کاسیاسی طورپرساتھ نہ دیاجائے اورمسلم لیگ ن کو آئندہ ووٹ نہ دیاجائے اس حوالے سے بریلوی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے باقاعدہ اعلان بھی کردیاتھا بلکہ مفتی حنیف قریشی نے ،،ن لیگ چھوڑوتحریک ،،شروع کرنے کااعلان کردیاتھا ۔
اس تحریک میں دیگرمکاتب فکرکے علماء کرام اورمذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہونے لگی تھیں ۔حکومت کے خلاف مذہبی جماعتوں کاایک سیاسی اتحادبھی بننے جارہاتھا ن لیگ اپنے ممبران کی طرف سے بھی ممتازقادری کے مسئلے پرمزاحمت کاسامناتھا ،،حتی کہ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے دامادکیپٹن صفدرنے بھی ممتازقادری کے مسئلے پرحکومت کے مئوقف کی مخالفت کی تھی اس دوران ہونے والے تین ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ کربھی حکومت کواندازہ ہواکہ ممتازقادری کے ایشوپرانہیں جس مزاحمت کاسامناہے اگریہ تحریک اسی طرح بڑھتی رہی اورحکومت نے بروقت اس کاسدباب نہ کیاتوآئندہ الیکشن میں اس کے خوف ناک نتائج نکل سکتے ہیں .
حکومت نے اس ساری صورتحال کوبھانپتے ہوئے دھرناپارٹی کے ساتھ معاملات کودرست طریقے سے ہینڈل کرکے ایک مرتبہ نہ صرف بریلوی مکتبہ فکرکی ہمدردیاں حاصل کرلی ،بلکہ ممتازقادری ایشوکوبھی دبادیاگیا ۔یوں نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے اپنے خلاف اٹھنے والی کسی دوسری متوقع تحریک کے غبارے سے بھی ہوانکالنے کے لیے مناسب یہ سمجھا کہ ڈی چوک والوں سے ،،طے شدہ معاملات ،،طے کرلیے جائیں کیوں کہ دوسری طرف اگردینی جماعتوں کاکوئی سیاسی اتحادبن گیاتوحکومت کے لیے اس کے ساتھ معاملات اورمعاہدہ کرنے میں شدیدمشکلات ہوسکتی تھیں حکومت نے یہ معاملہ کرکے ایک مرتبہ پھرسے اپنے ہاتھ سے نکلتاہواووٹ بنک قابوکرلیا اوراپنے خلاف اٹھنے والی ایک تحریک سے بھی اپنے لیے خیربرآمدکرلی ہے ۔
حکومت پرسیکولرازم کے حوالے سے جوتنقیدکی جارہی تھی اس کوبھی وقتی طورپر بریک لگ جائے گا ؟راایجنٹ کی گرفتاری اورنیٹ ورک کے پکڑے جانے والے ایشوکوبھی بڑاایشونہیں بننے دیاگیا ؟حکومت نے یہ بھی مناسب سمجھا کہ اس سے پہلے کہ کوئی اور،،دھرنے شو،،کوایکسپوزکرے اس ،،بلاخیزاورطوفان ،،ازخود ہی معاملات کرلیں توبہترہے ۔
حکومت نے اگرچہ اس دھرنے سے سیاسی مفادتوحاصل کرلیا مگردھرنے کی وجہ سے جو اربوں روپے کاقومی نقصان ہواہے اس کاجواب کسی نے بھی نہیں دیا ؟