اممدھرنوں کے چیمپیئن نے پانامہ لیکس کے سکینڈل پر رائے ونڈ میں نواز شریف کی رہائش گاہ کے آگے دھرنے کا عندیہ دیتے ہوئے سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کی فرمائش بھی کر ڈالی. عمران خان کے پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کے مطالبے نے وطن عزیز میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے. عمران خان بطور ایم این اے قوم سے خطاب کر سکتے ہیں یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے اور اس مضحکہ خیز بات پر تبصرہ مزاح کیلئے بھی اچھا ہے.البتہ اس مطالبے سے سرکاری ٹی وی کے روایتی جانبدارانہ پن اور حکومتوں کے آلہ کار ہونے پر ایک تعمیری بحث کا آغاز ہو چکا ہے جو کہ خوش آئیند امر ہے.
پی ٹی وی کو ہر حکومت اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے صرف اپنے حق میں پراپیگینڈے کیلئے دہائیوں سے استعمال کرتی آ رہی ہے.ملک میں کیبل پر دیکھے جانے والے نجی ٹیلیویژن چینلز کے مقابلے میں پی ٹی وی کی ویور شپ کئی گنا زیادہ ہے. اس لئے یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر حکومت کو سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹیلیویژن پر اپنا موقف چوبیس گھنٹے پیش کرنے کی اجازت ہے تو اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کو کیوں نہیں.
آخر کو پی ٹی وی سرکار کے پیسے سے چلتا ہے آور یہ پیسہ عوام کے دیئے گئے ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے. کم سے کم ہر سیاسی جماعت کے قائد کو حالات حاضرہ کے پروگرامز میں چند گھنٹے ہر ماہ دے کر اظہار رائے کی آزادی اور اپنا اپنا موقف عوام کی کثیر تعداد تک پہنچانے کو ممکن بنایا جا سکتا ہے.اس مطالبے کا دوسرا پہلو کچھ مضحکہ خیز اور بچگانہ ہے.قوم سے خطاب کا حق کسی بھی ٹی وی چاہے وہ نجی ہو یا سرکاری صرف اور صرف سربراہ مملکت کو حاصل ہوتا ہے.
قوم سے خطاب کرنے کی جناب عمران خان کی خواہش اپنی جگہ پر لیکن اس مضحکہ خیز مطالبے کے بعد عمران خان کی سیاسی سمجھ بوجھ اور ان کو مشورہ دینے والے ساتھیوں کی سوچ پر کئی سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر عمران خان صرف بولنے سے پہلے کچھ سوچنا سیکھ جائیں تو انہیں سیاسی محاذ پر ہر دفعہ خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے.وزیر اعظم کی شیروانی پہننے کا خواب اچھا ہے لیکن اس کی عملی تعبیر کیلئے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنی پڑتی ہے اور اکثریت کے بل پر سربراہ مملکت بن کر قوم سے خطاب کا شوق پورا کیا جا سکتا ہے.
سن 2013 کے انتخابی نتائج سے لیکر آج تک کی تاریخ تک عمران خان اس حقیقت کو ماننے کیلیے تیار نہیں ہیں کہ عوام نے ان کی جماعت کو تین صوبوں میں بری طرح مسترد کیا. دھرنے میں بھی لوگوں کی انتہائی کم تعداد نے اس بات پر مہر ثابت کر دی کہ عمران خان کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل نہیں ہے. اگر اس مضحکہ خیز مطالبے کو منطق کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس کے مطابق پھر قوم سے خطاب کا حق تو ان جیسے سینکڑوں قومی اسمبلی کے ممبران کو بھی ملنا چائیے گویا قوم سال کے 365 دن خطابات ہی ملاحظہ فرماتی رہے.
تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں سوائے سیاست کے. شہری علاقوں کی پڑھی لکھی آبادی اور فیس بک پر چند لاکھ افراد کا کسی کو پسند کرنا اگر اسے وزیر اعظم بنوا سکتا تو غالبا قندیل بلوچ یا میرا باآسانی اس وطن کی وزرائے اعظم بن سکتی تھیں.اب کل کو میرا اور قندیل بلوچ بھی قوم سے خطاب کرنے کا مطالبہ کریں تو ہم کس منہ سے اس مطالبے کو رد کریں گے کہ جناب عمران خان نے خود اس کی ابتدا کی ہے.
دوسری جانب اگر عمران خان صاحب کے شکست محرومی اور انا کو تسکین قوم سے خطاب کر کے مل سکتی ہے تو خود ان کی اپنی جماعت کو چائیے کی مختلف نجی چینلز پر پرائم ٹائم خرید کر شوق سے قوم سے خطاب کا شوق ہر روز یا ہر ہفتہ پورا کریں. عمران خان صاحب کا دوسرا شوق البتہ بہت مہنگا اور نقصان دہ ہے.آخر کو دھرنے سے نہ صرف روز مرہ کے معاملات زندگی متاثر ہوتے ہیں بلکہ وطن عـزیز کی معاشی و سیاسی سرگرمیاں بھی جمود کا شکار ہو جاتی ہیں.
گو ڈی چوک پر کچھ عرصہ قبل دیئے گئے دھرنے سے عمران خان کو کم سے کم بات تو سمجھ آ جانی چائیے تھی کہ دھرنوں سے حکومت گرانے کے ادوار اب ختم ہو چکے ہیں لیکن اگر پھر بھی خان صاحب اپنا شوق پورا کرنے چاہتے ہیں. تو انہیں دھرنے کیلئے کسی مناسب میدان یا مقام کا انتخاب کرنا چائیے تا کہ شہریوں کے معاملات زندگی اور آمدو رفت میں بھی کسی قسم کا خلل نہ پڑے.
خان صاحب کے دھرنوں میں موسیقی اور مختلف قسم کے علاقائی و بین الاقوامی رقص کے باعث اگر عمران خان صاحب متوقع دھرنے کو ثقافتی یا کلچرل گیٹ ٹو گیدر کا نام دے دیں تو یہ انتہائی مناسب ہو گا. کیونکہ جناب عمران خان کے دھرنے سیاست میں کوئی بھونچال لانے کے بجائے انٹرٹینمنٹ کے مواقع فراہم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے. اور ہماری نوجوان نسل کو ویسے بھی انٹرٹینمنٹ کے مواقع کم ہی حاصل ہوتے ہیں.
جہاں تک عمران خان صاحب کے شیروانی پہننے کا ارمان ہے تو کم سے کم وزیر اعظم کی شیروانی انتخابات کے زریعے تو ان کے کاندھوں پر سجتی دکھائی نہیں دیتی . جو قوتیں سیاسی پیراشوٹ سے اکثر و یشتر مصطفی کمال جیسے لوگوں کو سیاسی میدان میں جلا بخشتی ہیں وہ عمران خان کی گزشتہ عام انتخابات میں مایوس کن کارکردگی اور گزشتہ دھرنے کی سازش میں تحریک انصاف کے سیاسی بلنڈرز کی وجہ سے عمران خان اور ان کی جماعت میں اب کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتیں. تو پھر ایسے میں جناب عمران خان کو سوشل میڈیا کے وزیر اعظم کا خطاب دے کر ان کا یہ ارمان پورا کیا جا سکتا ہے .
ویسے بھی خان صاحب انتخابات میں مقبولیت کے بجائے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر مقبول ہونے کو ترجیح دیتے ہیں .خیر پانامہ لیکس کے انتہائی سنجیدہ اور اہم مسئلے سے حکمران جماعت کیلئے پیدا ہونے والی سنگین سیاسی مشکلات کو ایک بار پھر عمران خان نے اپنی ناتجربہ کاری اور سیاسی بلوغت کی کمی کے باعث سہل کر دیا.سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کے مضحکہ خیز مطالبے اور رائے ونڈ کے آگے دھرنہ کی بھونڈی دھمکی نے حکومتی سپن وزرڈز کا کام بے حد آسان کر دیا اور وزرا جو کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر بیک فٹ پر نظر آ رہے تھے اب عمران خان اور ان مطالبات کو موضوع بناتے ہوئے باآسانی پانامہ لیکس کے انکشافات سے قوم کی توجہ تقسیم کروانے میں کامیاب نظر آتے ہیں .
سیاست میں اس قسم کی احمقانہ حرکتیں کرنے والی اپوزیشن قسمت کے دھنی کو ہی نصیب ہوتی ہے اور نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں عمران خان کے روپ میں نابالغ سیاسی حریف ملا ہوا ہے.رہی بات عمران خان صاحب کے قوم سے خطاب اور دھرنے کی تو یہ واضح اشارہ ہے کہ موصوف اب وزیراعظم کی شیروانی پہن کر اپنا ارمان کسی بھی صورت پورا کرنا چاہتے ہیں. ارمان یا خواہشات رکھناکوئی جرم نہیں ہے لیکن جو ارمان خان صاحب کا ہے وہ صرف انتخابات جیت کر ہی پورا ہو سکتا ہے.