کراچی: قومی ٹیم کے مایہ ناز فاسٹ باؤلر عمر گل نے کیریئر ختم ہونے کی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی فٹنس پر کام کر رہے ہیں اور جلد قومی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
انجری اور خراب فارم کے سبب ایک عرصے سے ٹیم سے باہر رہنے والے عمر گل نے ڈان کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ جب میں 2004 میں انجری کا شکار ہوا تھا تو اس وقت بھی لوگوں نے کہا تھا کہ میرا کیریئر ختم ہو چکا ہے لیکن میں نے بہترین انداز میں واپسی کی۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کیا کہتے ہیں میں اس پر یقین نہیں رکھتا، میں اپنی فٹنس پر کام کر رہا ہوں، اپنے آپ پر یقین ہے اور بہت جلد ٹیم میں واپس آؤں گا۔
فاسٹ باؤلر نے کہا کہ میں مکمل فٹ اور بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں، حال ہی میں ڈومیسٹ کرکٹ اور پاکستان سپر لیگ میں شرکت کی تھی جبکہ ایک ہفتہ قبل پشاور میں کلب کرکٹ میں بھی حصہ لیا تھا۔
یاد رہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے کامیاب ترین باؤلرز میں سے ایک تصور کیے جانے والے عمر گل کا کیریئر انجریز سے عبارت رہا ہے اور خصوصاً گزشتہ تین چار سال کے دوران وہ مسلسل انجریز کا شکار رہے جبکہ اپنی ناقص فارم کی وجہ سے ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں بھی ناکام رہے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ورلڈ کپ 2015 اور رواں سال ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے بھی پاکستانی اسکواڈ میں جگہ بھی نہیں بنا سکے تھے۔
اپنی ناقص فارم اور ٹیم میں جگہ نہ بنانے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے عمر گل نے کہا کہ میں سات آٹھ ماہ بعد کم بیک کر رہا تھا اور مجھے کافی حیرانی ہوئی کہ سلیکشن کمیٹی نے محض ایک میچ بعد ہی مجھے ٹیم سے باہر کر دیا۔
عمر گل نے اپریل 2015 میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ کے بعد جنوری میں دورہ نیوزی لینڈ میں سیریز کے لیے قومی ٹیم کا حصہ بنے لیکن دو میچوں میں غیر معیاری کارکردگی کے بعد ان کو باہر بٹھا دیا گیا۔
‘فاسٹ باؤلر کو فارم میں آنے کے لیے ردھم کی ضرورت ہوتی ہے، آپ کسی سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ انجری کے بعد واپس آتے ہی دس وکٹیں لے یا کارکردگی دکھانے لگے، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ کس طرح کا معیار ہے۔ انہیں صحیح طریقے سے موقع دینا چاہیے، صرف ایک میچ کے بعد فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم ایک سیریز میں موقع دیں اور پھر فیصلہ کریں۔ کسی کو بھی ڈراپ کرنے سے پہلے بھرپور موقع دینا چاہیے’۔
‘میرا ماننا ہے کہ میں نے پاکستان سپر لیگ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، میں وہ واحد باؤلر تھا جس نے اوس پڑنے کے باوجود یارکرز کیں، کسی بھی کھلاڑی کے معیار کو پرکھنے کے لیے مناسب موقع دینا چاہیے۔
دو دن بعد اپنی 32ویں سالگرہ منانے والے عمر گل نے کہا کہ مزید تین سے چار سال کرکٹ کھیل سکتے ہیں اور وقت آںے پر یہ بات ثابت کردیں گے۔
فاسٹ باؤلر نے قومی ٹیم کی ناقص کارکرردگی کی وجہ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی ٹیموں میں تواتر کے ساتھ تبدیلیوں کو قرار دیا۔
‘میرا ماننا ہے کہ ہم ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میچوں میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہے لیکن ٹیسٹ میں ہماری کارکردگی بہترین ہے۔ اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ٹیسٹ ٹیم کے مقابلے میں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بہت زیادہ تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ دیگر فارمیٹس میں بھی کھلاڑیوں کو صحیح طریقے سے مواقع فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری کارکردگی میں تنزلی کا سلسلہ جاری رہے گا’۔
پاکستان کی جانب سے دائیں ہاتھ کے معیاری فاسٹ باؤلرز پیدا کرنے کے بارے میں عمر گل نے کہا کہ یہ بات سابق ہیڈ کوچ وقار یونس سے پوچھنی چاہیے جو خود بھی ایک سابق فاسٹ باؤلر تھے۔
‘ہمارے پاس دائیں ہاتھ کے معیاری فاسٹ باؤلرز کی شدید کمی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمارے ہیڈ کوچ کو اس بات کا جواب دینا چاہیے کیونکہ ان کے پاس ذمے داری تھی، وہ کیوں بہتر فاسٹ باؤلر پیدا نہیں کر سکے اور ہمارے فاسٹ باؤلر اچھی کارکردگی کیوں نہیں دکھا پا رہے۔ ان سے اس بات کی جواب طلبی ہونی چاہیے کیونکہ ماضی میں پاکستانی فاسٹ باؤلرز ہی میچ جتوانے میں مدد کرتے رہے ہیں۔
47 ٹیسٹ، 126 ایک روزہ اور 60 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز رکھنے والے عمر گل نے بنیادی سطح پر توجہ نہ دینے کو مسائل کی وجہ قرار دیتے ہوئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
‘میرا خیال ہے کہ ہمیں گراس روٹ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر ہم معیاری کھلاڑی پیدا کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں، میں نے حال ہی میں دومیسٹک سیزن میں حصہ لیا لیکن مجھے وہاں کوئی معیاری بلے باز یا باؤلر نظر نہیں آیا ۔۔۔ اچھے کھلاڑی پیدا کرنے کے لیے ہمیں اکیڈمیز میں کیمپ لگانے ہوں گے’۔