مظہر الاسلام اور باتوں تلے دبا ہوا عملہ

کہنے لگی

یہ کیا عنوان رکھا ہے تم نے” مظہر الاسلام اور باتوں تلے دباہوا عملہ ”۔مظہر الاسلام کی باتیں بھلا پہاڑوں سے گری ہوئی چٹانیں ہیں جو عملہ اس کی باتوں نیچے دب گیا ہے ۔یہ بہتان ہے اور تم نہیں جانتے کہ تمہیں اس بہتان کی کیا سزامل سکتی ہے ؟ تم جانتے ہو کہ ان دنوں کتابوں کے باغ (نیشنل بک فائونڈیشن)کا مالی ہے ۔ وہ تمہیں کتابو ں کے درختوں کے ساتھ باندھ سکتا ہے ۔ وہ تمہیں کسی پولیس والے کی لکھی ہوئی کتاب میں مجرم قرار دے سکتا ہے ۔ وہ کسی طوائف کی آبیتی میں تمہیں گھنگورو پہنا سکتا ہے۔ وہ تمہیں تاریخ کی گمنامیوں میں دھکیل سکتا ہے جہاں سے mazharتم کبھی واپس نہیں لوٹ سکوگے۔ وہ تمہیں تجریدی افسانے کا کردا ربناسکتا ہے جہاں تمہیں کوئی بھی سمجھ نہیں سکے گااور تم کبھی پہنچانے نہیں جائوگے یا اگر کسی نے تمہیں سمجھ بھی لیا تو اسکا اظہار ممکن نہیں ہوسکے گا۔ وہ تمہارے تصوراتی وجود کو علامتوں کے سپرد کر دے گا۔ وہ تمہیں مزاح نگاروں کا موضوع بناسکتا ہے جہاں سب تم پر ہنستے رہیں گے ۔

میں نے کہا

تم نے یہ سب عجلت میں فرض کر لیا ہے ۔ ابھی تو میر ی بات بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ تمہارے الزامات کا میر ے اوپر آ گرے ہیں ۔ تمہیں معلوم ہے کہ میر ے دل میں مظہر سے ملاقات کی جوت کیو ں لگی ؟شاید تم اس کا جواب نہیں دے سکو گی۔ کیونکہ تم میری کیفیت کو نہیں سمجھ سکتی۔ کتنے ہی الزام میرے سر رکھ دیئے ہیں ۔ جن کا مجھ سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ تم نے قصہ چھیڑ ہی دیا ہے تو پھر سنو ! تم نے مظہر کا ”محبت : مردہ پھولوں کی سنفنی”ناول تو پڑھا ہوگا۔ جو مظہر نے دنیا سے معدوم ہوتی ہوئی محبت کے احیا کیلئے لکھا تھا۔ میں نے سات سال قبل اس زمانے میں پڑھا تھا کہ جب مجھے بھی بال بنانا اچھا لگتا تھا۔ آئینے سے نیچے اترنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت کہ جب میرے اندر ایک شخصیت جنم لے رہی تھی۔ دنیا رنگین تھی اور سب اچھا لگتا تھا۔ میں وہی چہرے دیکھ سکتا تھا جو نظر آتے تھے ، روپ کے پس منظر میں نفرت اور منافقت کے بہروپ کی پہچان نہیں تھی ۔لیکن من سچا تھا ، میت سچے تھے پریت سچی تھی ۔ وقت ہوا کے جھونکے اور دریا کے ریلے کی طر ح بہہ گیا۔ اس زمانے میں شعر کہنے کا بھی خبط تاری تھا، کچھ اشعار کہے ایک شعر یا د پڑتا ہے کہ
وہ حلقہ ئے یاراں نہیں محفل نہیں
فرصت میسر ہے مگر وہ دل نہیں

کہنے لگی

تمہاری باتوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے خیر جاری رکھو اتنا بھی گراں نہیں کہ دم گھٹنے لگے

میں نے کہا

پھر مجھے مظہر” گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی ” محسوس ہوا، یہ اسکی کہانیوں والا چہر ہ تھا، جس کے ابتدائی اوراق میں” کہنے لگی” اور” میں کہا” کا دل موہ لینے والے مکالماتی اندازنے ایک مرتبہ پھر مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ابھی کہانیاں شروع ہی ہوئی تھیں کہ ریت کنارے ایسے گم ہوا کہ برسوں بیت گئے ابھی تلک صحرا کے کانٹوں پر میر ی گمشدگی کے اشتہار چسپاں ہیں۔ جانے ویرانوں میں گھوما !یاد نہیں ۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ میر ے ”سوچ پر بیٹھی ہوئی مکھی ” تھی کہ جس نے مجھے گھوڑا بنا کر سارے شہر میں گھمایا ،یا پھر” بارہ ماہ ” کا گول چکر تھا جس میں مظہر نے مجھے چائے کی پیالی میں پھینک دیا تھا جس میں سے آج تک نہیں نکل سکا ۔ مظہر کے اسلوب نگارش کے آسیب نے میرے حواس مائوف کر دیے۔ حواس باختہ میر ی نظر ”خط میں پوسٹ کی ہوئی دپہر پر پڑی ”،جس میں برائون آنکھوں والی بوڑھی عورت اور سادہ آنکھو ں والی عورت”جاگتے سمندر کے کنار سوئی ہوئی کشتیوں”کی طرح بے بسی اور محرومی پہ بین کر رہی ہوں ۔آج تک ”باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی ” سے ملاقات نہیں ہوسکی اور گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھنے کی فرصت نہیں ملی کیونکہ میں مظہر کی کھوج میں تھا۔لوک ورثہ کی ڈائریکٹری کے زمانے میں ملاقات نہیں ہوسکی تھی تاہم ایک دن اخبارات کے صحن میں کھلتے ہوئے الفاظ پر مجھے یقین آگیاکہ اسے نیشنل بک فائونڈیشن کا ایم ڈی بنا دیا گیاہے، اب کتاب سے توہمارا پرانا رشتہ تھا۔

کہنے لگی

مجھے تمہاری باتیں بور کر رہی ہیں اپنی نہیں مظہر کی باتیں سنا ئو

میں نے کہا

کتابوں کے باغ (نیشنل بک فائونڈیشن) تک پہنچتے مہینے لگ گئے، کبھی مجھے فرصت نہیں ملی اور کبھی مظہر الجھا رہا ۔ لیکن ایک دن ملاقات کا وقت برابر ہو ہی گیا،میں کمرے میں داخل ہوا تو ایسا لگا کہ مظہر چند ماتحتوں کی باتوں میں ایسے گھرا ہوا ہے جیسے غریب مشکلات میں ۔ جیسے کبڈی کے متعدد کھلاڑی ایک کھلاڑی کو گھیر ے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جب قریب جاکر بیٹھا تو یہ منکشف ہوا کہ مظہر ماتحتوں کی باتوں تلے نہیں دبا ہوا بلکہ بے چارے ماتحت مظہر کی باتوں کے بوجھ تلے ہانپ رہے تھے ۔ ماتحتوں کے چہروں سے کہیں بھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہورہا تھا کہ جس سے میں نے یہ اندازہ لگا یا کہ شاید وہ یہ بوجھ بخوشی قبول کئے بیٹھے ہیں ۔ اب بتلائوبھلا میں نے مظہر پر کون سابہتا ن چسپاں کیاتھا میں نے ۔یہی ہمار ا المیہ ہے کہ ہم ادھورے تصوارت کی نیم پختہ اینٹوں کے مفروضوں اور نظریات کی عمارت تعمیر کرتے ہیں ۔

کہنے لگی

فضول باتیں چھوڑو، مظہر کیسا تھا ؟

میں نے کہا

حیرتوں میں الجھا ہوا سچا ادیب ۔ اس کی باتوں سے غیر محسوس سچائیوں کی جستجو مہک رہی تھی۔ وہ انسان کے جمالیاتی ذوق کو بیدار کرنا چاہتا تھا۔ اس کی ہر بات ایک کہا نی تھی۔ کبھی کہانی باتوں کا روپ دھار رہیں تھیں اورکبھی باتیں کہانی کا۔ جتنی دیر بھی نشست رہی مظہر کے منہ سے تپکتے ہوئے کہانیوں کے ٹکرے ہی سمیٹتا رہا۔ اکثر ”فن پارے”فن کار کی شخصیت کے بالکل بر عکس ہوتے ہیں ، لیکن اس کی کہانیاں ذہن میںجیسا تصور بنتیں تھیں وہ بالکل ویسا ہی تھا۔ اسلام آباد میں موجود سرکاری ادیبوں میں منافقت فرض سمجھ کر برتی جاتی ہے۔ لیکن مجھے مظہر کی ذات میں منافقت نظر نہیں آئی ۔ اب یہ فریب نظر تھا یا واقعتا حسن بے داغ ، اسکا فیصلہ میں نہیں کرسکتا، کیونکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ منافق نہیں ہے تو پڑھنے والے یہ سمجھیں گے کہ تعصب سے کام لے رہے ہواور اگرمنافقت روایت کروں تو بھی انصاف نہیں ہوگا۔ میں حافظے کی گڈری لے کر گیا تھا لیکن مظہر کی لطیف باتیں سما نہیں سکیں ، موٹی موٹی وزنی باتیں ہی بچ گئیں جو بیان کر دیں ہیں۔

کہنے لگی

اسکے بالوں میں نر گسیت کے پھول تو نہیں تھے؟

میں نے کہا

بالکل اسکے بالوں میں نرگسیت کے پھول اچھے لگ رہے تھے۔ کیا ادیب کو خودپسند نہیں ہوناچاہیے؟ اور اگر نرگسیت کے پھول بالوں میں کوئی سجا ہی بیٹھا ہے تو قباحت کیا ہے؟ اگر ماں اپنی اولاد کو نایاب تصورکرتی ہے تو تخلیق کار سے یہ حق کیوں چھینا جاتا ہے کہ وہ اپنی معنوی اولاد یعنی تخلیق اور اس کے خالق سے پیا ر نہ کرے۔تم سب سے بڑے خالق کی نرگسیت بھول چکی ہو۔

نوٹ :یہ اس زمانے کی بات ہے جب مظہر الاسلام نیشنل بک فائونڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے ۔ ایک اخبار کیلئے کئے گئے انٹرویوکے بعد لکھی گئی تحریر ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے