لندن میں صادق خان کا انتخاب اور مولویوں پر تنقید

imtiaz

آپ فارغ ہیں، تو مولویوں پر تنقید کیجیے! ویسے تو میرا بھی یہ پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کوئی نہ ملے تو مولوی ہی سہی۔ مولوی پر تنقید آپ بھی کیجیے اور ضرور کیجیے لیکن کسی بنیاد پر کیجیے۔ ہمارے بعض دوست اور ’’دانشور‘‘ اکثر اوقات جس طرح ’بلیک اینڈ وائٹ‘ طریقے یا کسی دلیل کے بغیر سے اس طبقے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اس پر میری بھی ہنسی نکل جاتی ہے۔

اوپر والی تصویری پوسٹ ہمارے ایک انتہائی قابل احترام اور پڑھے لکھے صحافی کی ہے، میں ان کا اور ان کی علمی خدمات کا دل سے احترام کرتا ہوں لیکن اختلاف رائے کا حق تو سبھی کو حاصل ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں بھی کوئی برطانوی نژاد مسیحی میئر بن سکتا ہے اور اس میں کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ سیاسی سطح پر پاکستان کا مسئلہ صدر اور وزیر اعظم کا ہے کہ کوئی غیر مسلم اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اس نقطے پر بحث ہو سکتی ہے اور کی بھی جانی چاہیے۔ دوسرا یہ نقطہ بھی ایک جمہوری حکومت نے آئین میں شامل کیا تھا نہ کہ کسی فرد واحد نے۔ تیسرا جہاں تک عملی سیاست کی بات ہے تو یورپ کا کوئی ایسا ملک یا ترقی یافتہ کوئی ایسا ملک بتا دیجیے جہاں آج تک کوئی اقلیتی مذہب کا سربراہ حکومت آیا ہو۔ جاپان سے لے کر جرمنی تک کوئی بھی نہیں ملے گا ( اب میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی اچھی بات ہے، ہمیں رنگ ، مذہب اور نسل کو چھوڑ کر انسانیت کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہیں)

وہ کہتے ہیں کہ یہ سکولرازم کا کمال ہے کہ صادق خان لندن کے میئر بن گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صادق خان کو جیت کے باوجود گوروں اور نسل پرستوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لندن میں وہ اس وجہ سے بھی جیتے کہ وہاں کی تقریباﹰ چالیس فیصد آبادی ایسی ہے، جس کا تعلق دنیا کے دیگر ملکوں سے ہے یعنی یہ پکے ٹھکے انگریز نہیں ہیں۔ اور ان دیسیوں کی اکثریت نے صادق خان کا ساتھ دیا۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انگلینڈ تو آئینی طور پر خود سیکولر ملک ہی نہیں ہے۔ اسی طرح ناروے بھی آئینی طور پر ایک مذہبی ریاست ہے۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ برطانیہ اور بھارت سیکولر ریاستیں ہیں، لہذا اس وجہ سے وہاں مذہبی، نسلی یا صنفی تعصب نہیں ہے۔ یہ بات بھی حقائق کے برعکس ہے۔ بھارت میں تو مذہبی جماعت کئی مرتبہ اقتدار میں بھی آ چکی ہے اور اقلیتوں کے حوالے سے نریندر مودی کی حالیہ علاقائی پالیسیاں اس کا مظہر ہیں۔

پھر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان مولویوں کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک پر حکومت سیاسی جماعتیں اور فوجی کریں، یونیورسٹیاں پروفیسروں اور حکومت کے ہاتھ میں ہوں اور ایجادات نہ کرنے کا سہرا آپ مولویوں کے سر باندھ دیں۔ وہ تو مدرسے چلا رہے ہیں، یونیورسٹیاں نہیں چلا رہے، یا انگلش میڈیم کالج تو نہیں چلا رہے۔ جہاں پر جائز تنقید ہے وہ ان پر کریں لیکن ہر چیز کا ملبہ ان پر نہ ڈالیے۔ اب یونیورسٹیوں کے لیے تحقیقی بجٹ مولویوں نے مختص کرنا ہے یا حکومت نے؟

ملک میں کتنے سیکولر ادارے، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ اگر پیمانہ سیکولرازم ہی ہے تو ان کے ہاں ایجادات کی لائن ہونی چاہیے تھی۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ملک میں سیکولرازم نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ناانصافی ہے، کرپشن ہے، جاگیر دار وڈیرے ہیں، مفلوج عدالتی نظام ہے، مرتا ہوا صحت کا نظام اور یہ سرمایہ کار ہیں۔

اگر صرف ریاست کو غیر مذہبی بنانے سے ترقی ہوتی تو مالی، انگولا اور کیمرون سمیت افریقہ کے اکیس ممالک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوتے۔ یہ سارے ملک کرپشن اور نا انصافیوں کے مارے ہوئے ہیں۔ اصل میں ہمیں ترقی اور پسماندگی کے سبھی اسباب کو وسیع النظری سے دیکھنا چاہیے نہ کہ صرف ایک طبقے کو ہی جوتیاں مارتے چلیں جائیں۔ ہمارے کونسے صحافی پاک باز ہیں، کونسے سیاست دان نے کرپشن نہیں کی، کونسا ادارہ کرپٹ نہیں ہے؟ کونسا ادارہ کارکردگی دکھا رہا ہے؟ بجلی نہیں آتی مولویوں کا قصور ہے؟ ملکی آئین پر فوج قابض ہوتی ہے تو مولویوں کا قصور ہے؟ خارجہ پالیسیاں ان سے پوچھ کر بنتی ہیں؟ یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ پورے ساتھ ایشیا میں کم ہے، تو مولویوں کا قصور ہے؟ جعلی ادویات مولوی بنا رہے ہیں؟ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ مولوی کرتے ہیں؟ دودھ میں پانی مولوی ڈال رہا ہے؟
میں یہ نہیں کہتا کہ مولوی بری الزمہ ہیں یا ان پر تنقید نہیں ہونی چاہیے لیکن سب پر اس کے شعبے اور اس کے قصور کے مطابق تنقید کیجیے۔ ریاست میں مذہب کے کردار پر بھی بحث کیجیے لیکن مذہب اور ریاستی ترقی میں براہ راست تعلق کی ٹھوس وجوہات پیش کیجیے۔ اس شعبے کے ساتھ ساتھ باقی وجوہات پر بھی نظر ڈالیے اور اپنی ذات پر بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے