مجھے پہچان دو

اللہ تعالی اپنے بندوں سے70ماوٓں سے بھی ذیادہ محبت کرتاہے۔دنیا میں اگر کو ئی ہستی محبت کے اعلیٰ منسب پر فائز ہے تو وہ ماں ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کو ئی بھی انکاری نہیں والدین اپنی اولاد کے کیلئے ایک گھنا سایہ ہوتے ہیں بچے ان ہی کی سرپرستی میں پروان چڑھتے ہیں۔بچہ جب بڑا ہوناشروع ہوتا ہے تو وہ ماں باپ بہن بھا ئی یا پھر رشتے دار میں سے ہی کسی کو اپنا آئیڈیل بنا لیتا ہے اور پھر کوشش کرتا ہے کہ ان جیسا بن جائے اکثر ہم یہ بھی سنتے ر ہتے ہیں کہ فلاں کابیٹا ما ں جیسا ہے یا باپ پر چلا گیا ہے یا دادا کے نقش قدم پہ ہے آج میں ایک ایسے کردار کو زیر بحث لارہی ہوں جو اپنے خاندان میں کسی کے جیسا نہیں

شناخت ایک ایسا لفظ ہے جو اس د نیا میں مو جو د تمام مخلو قات کے لیے نہ صرف اہمیت کا حا مل ہے بلکہ ایک آفا قی حقیقت بھی رکھتا ہے شنا خت کا یہ سلسلہ بنی نو ع آدم کے دور سے چلا آرہا ہے قوم قبیلے اور خا ندان سے ہی انسان پہچانا جا تا ہے لیکن وہ لو گ کیا کرے جن کی دور دور تک کو ئی شبا ہت نہیں لوگ انھیں مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ان کی اپنی کو ئی شناخت نہیں۔ معاشرہ انھیں مختلف ناموں سے پکارتا ہے ہجڑا، خواجہ سرا، چھکا وغیرہ وغیرہ، نہ جانے کیوں مجھے ان ناموں سے کوفت سی ہے بہت عجیب لگتے ہیں یہ الفاظ بہت سوچنے کے بعد میرے ذہن میں ایک نام اجاکر ہوا کہ میں انھیں اپنے اس تحریر میں وسطی مخلوق کے نام سے پکاروں کیونکہ میرے پاس دوسرا کوئی نعم البدل نہیں ۔مرد اور عورت کی اس دنیا میں یہ وسطی مخلوق صرف اور صرف اپنی شنا خت ہی تو ڈھونڈرہے ہیں۔

میں کون؟ میں کون کی بازگشت میں ہی ان کی صبح اور شام ہوجاتی ہے۔ان کے نام کے ساتھ انکے والدین کا نام تک نہیں ہے۔اگر ان کے والدین نہیں ہیں تو یہ وسطی مخلوق ہمارے معاشرے کا حصہ کسیے بن گئی اور کون ہیں انکے والدین کون کرتا ہے ان کی پرورش، کس ماں کی چھاؤں میں یہ پروان چڑھتے ہیں ماں تو محبت کا دوسرا نام ہے ان کی مائیں کون ہوتی ہیں کیسے انھیں گھروں سے نکال دیتی ہیں کیوں ان وسطی مخلوق کو گھر کے فرد کی حشیت حاصل نہیں ہے بہت سارے سوالات جن کا کوئی جواب نہیں ہے . جواب کی تلاش جاری تھی کہ جناح ہسپتال میں کرن سے ملاقات ہوگئی جو مریضوں کی عیادت کرتے ہوئے بھیگ مانگتی ہے جس کا کہنا تھا کہ یہاں مجھے خالی ہاتھ کوئی نہیں لوٹاتا اور اچھی گذربسر ہوجاتی ہے

جب میں نے کچھ سوالات پوچھنا شروع کیا توکرن ناراض ہوگئی اور کہنے لگی کہ یہ بھی ہمار ا مذاق اڑانے کا ایک طریقہ اپنا یا ہوا ہے لوگوں نے میں بہت مایوس ہوگئی کہ لگتا ہے مجھے کچھ پتہ نہیں چلنے والا زندگی کا پہیہ چلتا گیا کہ ا چانک میری ملاقات نیناں سے sundayمار کیٹ میں ہوئی نیناں بہت خوبصورت نقش والی وسطی مخلوق لڑکی تھی یہاں مجھے پتہ چلا کہ یہ تین طرح کے جنس والے ہوتے ہیں۔مردانہ وسطی،زنانہ وسطی اور تیسری قسم نربا ن کہلاتی ہے مردانہ وسطی میں مردانہ جنس ہا وی ہوتے ہیں۔زنانہ وسطی میں ذیادہ خصوصیات زنانہ ہوتی ہیں نربان دونوں کی درمیانی حالت ہوتی ہیں جنھیں طبی سہولیات کے بعد مردانہ یا زنانہ وسطی میں تبدیل کردیا جاتا ہے وسطی مخلوق کا دنیا میں آنا ایک کرو موسومل پیچیدگی ہے اگر وقت پر پتہ چل جا ئے تو اس کا علاج ممکن ہوسکتا ہے لیکن ترقی پزیر ممالک میں سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے اسطرح کی پیچیدگی میں میں قابو نہیں پایا جارہا

دنیا کے مختلف ممالک میں ان کو مختلف انداز سے نظر انداز کیا جارہا ہے ان ممالک میں سر فہرست انڈیا،پاکستان اور بنگلہ دیش ہے جہاں وسطی مخلوق سوائے عبرت کے نشان کے اور کچھ نہیں مختلف ممالک نے انھیں شہریت دے رکھی ہے جرمنی میں ان کی تمام حقوق پہ وجہ دی جاتی ہے پاکستان ،بنگلہ دیش اور انڈیا میں بھی انھیں حکومتی سطح پر قبول کیا ہے لیکن صرف کاغذی کاروائی کی حدتک، ان کے لئے کوئی قانون نہیں۔کسی بھی ادارے میں ان کی کوئی سنوائی نہیں۔ادارے کی بات تو بہت دور ہے یہاں تو بیچاروں کے گھر ہی نہیں نیناں جیسے بہت سے وسطی مخلوق بہت کسمہ پرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انھیں ان کے گھر والے نکال دیتے ہیں۔والدین اور بہن بھائی کے لئے یہ شرمندگی کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان جیسے نہیں ہوتے معاشرے کا ناسور بنا نے میں ان کے اپنوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے

یہ6سے8کی تعداد میں گرو کے ساتھ رہتے ہیں۔ان کے گرو ذیادہ تر مردانہ وسطی ہوتے ہیں اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اتنا گریز کیوں کرتے ہیں یہ وسطی مخلوق اب مجھے اندازہ ہورہا ہے ،دکھ اتنا دکھ کہ ایک دردرکا شہر آباد ہے ان کے اندار ان کی صحیح تعداد تک نہیں معلوم مردم شماری میں ان کی کوئی گنتی نہیں ہوتی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے انھیں محروم رکھا جاتا ہے . آج تک کسی وسطی مخلوق کو اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ہم انھیں اپنا دوست بنانے سے گریز کرتے ہیں دور دور تک دوستوں کی فہرست میں کہی وسطی مخلوق کا نام تک نہیں ہسپتال میں علاج معالجے میں بھی انھیں مسائل کا سامنا رہتا ہے

اعداد دوشمار کے مطابق 27%وسطی مخلوق ایڈزجیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیا رگڑ رگڑ کر اس جہاں فا نی سے چھٹکا را پا لیتے ہیں مسئلو ں کا نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا کفن دفن اور جنازہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے ۔ کو ئی نماز جنازہ پڑھانے کو تیار نہیں ہوتا کہ آیا زنانہ طریقہ اپنایا جائے یا مردانہ جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسئلے حل پذیر نہیں۔یہ بھی مختلف مذاہب کے ماننے والے ہوتے ہیں پاکستان میں ذیادہ تر تعداد مسلمانوں کی ہے اس کے باوجود نمازجنازہ نہیں اس پر مزید رنج یہ کہ میت کو رات کے اندھیرے میں ننگے پا ؤں لے کر جاتے ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کے چپل کی آواز ہم جیسوں کی نیندیں خراب کرے۔

یہ سب بتا تے ہو ئے نینا ں کی آنکھیں اشکبار تھی اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ ہم نارمل لوگ ان کا کتنا خیال رکھتے ہیں ۔ہم یہ کبھی نہیں سوچتے یہ ہمارے لئے صرف سوالیہ نشان سے ذیادہ کچھ نہیں ان کی بڑی تعداد تفریحی مقامات میں گداگری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں رات میں کسی فنگشن میں ناچتیگاتے ہیں لیکن آج کل یہ شغل بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔مغلیہ دور حکومت میں ان سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا رہا ہے۔ماضی میں یہ بہترین خدمات گزاری کے فرا ئض انجام دیتے رہے ہیں۔ایک خاص طبقہ تعلیم یافتہ بھی ہے جن کی تعداد پاکستان اور انڈیا کے میڈیا پر نظر آتی ہے۔ان میں سے کچھ فیشن ڈزائنرہیں اور مختلف اداروں میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اس کے باوجود ان کاکہنا ہے کہ ایسا کوئی دن نہیں جب ہم پر باتوں کے نشر نہ چلائے جاتے ہوں ایک خاص تعداد اپنے گذر بسر کرنے کیلئے اخلاق سے گری ہو ئی حرکتکرنے پر مجبور کردےئے جاتے ہیں اور کچھ نارمل لوگ ان کی بے سی اور لاچاری کادل بھر کے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بڑی دلیری سے انھیں معاشرے کی گندگی کا نام دے کر خود تمام برائیوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور خود کو اخلاق کے اعلیٰ منصب پر فائزکرلیتے ہیں۔

پاکستان میں پہلی این جی او ساتھی فاؤنڈیشن کے نام پر کام کررہی ہے مخیر حضرات کو آگے بڑھ کر مزید ادارے قائم کرنے چاہئے ۔یتیم بچوں کی کفالت تو بہت سے ادارے کردیتے ہیں۔عبدالستار ایدھی نے یتیم بچوں کو شنا ختی کارڈ بنوانے کیلئے والدیت میں اپنا نام دیا ہواہے۔انھیں بھی ایسے کسی ولدیت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ یتم نہیں یہ تو اے بائیو جنیسس کی زندہ تھیوری لگتے ہیں جو شا ید بن ماں باپ کے پیدا ہوجاتے ہیں۔اورسونے پہ سہاگہ یہ کہ معاشرہ ان سے جینے کا حق تک چھن لیتا ہے ہم ان کیلئے ہمدردی کا جزبہ نہیں رکھتے ہم یا تو انھیں حقارت سے دیکھتے ہیں یاپھر نظرانداز کردیتے ہیں ان کی معذوری ہمیں نظر نہیں آتی عزت دار طریقے سے زندگی گزارنے کاکوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔

صرف 55%لوگ ان کے حقوق دینا چاہتے ہیں لیکن 60%لوگوں کی تعداد ایسی ہے جو انھیں اپنے اردگرد دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے بسوں میں ان کے لیے کوئی سیٹ نہیں یہ کبھی زنانہ اور مردانہ حصے میں لوگوں کی جھرکیاں ہی سن رہے ہوتے ہیں کوئی کمپنی یا کارخانہ انھیں کام دینے کو تیار نہیں۔ ایسی صورت حال میں زندہ رہنا کمال بلکہ کمال انتہا کہنا زیادہ مناسب ہے بقول نیناں کے کہ ہم تو صرف یہ دعا ہی کرتے ہیں کہ لوگوں کے گھروں میں خوشیاں آئیں تو ہمیں ناچنے کا موقع ملے لیکن شاید ہم ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے شایددعا بھی نہیں ۔لیکن امید پہ دنیا قائم ہے ان پہ ہم طعنے زنی تو کم کرسکتے ہیں ان کو معاشرے کا ایک عزت دار فرد تو تصور کرسکتے ہیں اور کچھ نہیں۔تو قدرت کی ایک تخلیق کے روپ میں انھیں انسان ہونے کا وہ حق تو دے سکتے ہیں جو ہمارے اختیار میں ہے وہ ہے احترام،صرف احترام۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے