شریف خاندان کی جائیدادایک گورکھ دھندہ

پاگل خانے کا ڈاکٹر نئے داخل ہونے والے مریضوں کا معائنہ کر رہا تھا ۔ایک پاگل اسے سنجیدہ اور ہوش مند نظر آیا ۔ڈاکٹر نے اس سے پوچھا تمھیں یہاں کیوں لایا گیا تم تو اچھے خاصے ہو ۔پاگل نے جواب دیا جناب میں صحت مند ہوں ٹھیک ہوں دراصل ہوا یہ کہ میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ۔جس کی ایک اٹھارہ سالہ جوان لڑکی تھی ۔وہ بی آپنی ماں کے ساتھ میرے گھر میں رہنے لگی ۔اتفاق سے وہ لڑکی میرے باپ کو پسند آگئی اور اس نے اس سے نکاح کر لیا ۔اس دن سے میری بیوی میرے باپ کی ساس بن گئی ۔کچھ عرصے کے بعد میری بیوی کی لڑکی جو میرے باپ کی بیوی تھی کے ہاں اولاد ہوئی یہ بچہ رشتے کے لحاظ سے میرا بھائی ہوا کیونکہ وہ میرے باپ کا لڑکا تھا ۔مگر ادھر میری بیوی کا نواسہ بھی ہوا گویا میں اپنے بھائی کا نانا بھی بن گیا ۔کچھ عرصے کے بعد میری بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس دن سے میرے باپ کی بیوی سوتیلے بھائی کی بہن ہو گئی اور دادی بھی بن گئی ۔کیونکہ وہ اس کے شوہر یعنی میرے باپ کا پوتا تھا اس طرح میرا بچہ اپنی دادی کا بھائی بن گیا ۔زرا سو چئیے!ڈاکٹر صاحب میری سوتیلی ماں یعنی میری بیوی کی لڑکی میرے بیٹے کی بہن بن گئی میرا بیٹا میرا ماموں بن گیا اور میں اس کا بھانجا جبکہ میں خود اس کا نانا بھی ہوں اور میرے باپ کا لڑکا جو میری بیوی کی لڑکی کا بیٹا ہے وہ میرا بھائی بھی ہے میرا نواسہ بھی۔ڈاکٹر نے کہا خدا کے واسطے بس کرو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔

اسی سے ملتی جلتی کہانی شر یف خاندان کی جائیداد کی ہے پاناما لیکس کے بعد شریف خاندان اور ان کے حواریوں کے جو بیانات سامنے آئے وہ سمجھ سے بالا تر ہیں ۔حسن نوا زکہتے ہیںیہ کمپنیاں 2006میں خریدی ہیں ۔حسین نواز کہتے ہیں یہ ہماری نہیں کرائے کی ہیں۔مریم نواز کا کہنا ہے کہ میری جائیداد باہر تو دور کی بات پاکستان میں بھی نہیں میں اپنے والد کے ساتھ رہتی ہوں۔کلثوم نواز کا کہنا ہے کہ یہ پراپر ٹی 1996میں بچوں کو لے کر دی۔وزیر داخلہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ یہ پراپرٹی حسن نواز اور حسین نواز نے 1992میں خریدی۔پرویز رشید کا کہنا ہے کہ 2001میں یہ جائیداد خریدی گئی۔میاں نوا زشریف کا کہنا ہے کہ دوبئی اور سعودی عرب کی اسٹیل مل فروخت کر کے یہ جائیداد خریدی جبکہ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ ہم جدی پشتی امیر ہیں۔میاں شہباز شریف کا یہ کہنا ہے کہ 1969میں ہمارے پاس کو ئی مل نہیں تھی اور مجھے فخر ہے کہ میں غریب کسان کا بیٹا ہوں جبکہ اسی جائیداد کے متعلق لندن کی ہائیکورٹ کا فیصلہ مو جود ہے ،جو 2006سے سات سال قبل 1999میں حدیبیہ پیپر ملز والے معاملے میں سامنے آ چکا ہے اور یہی پراپرٹی شریف خاندان کی ملکیت ثابت ہو چکی ہے۔بیانات کا اتنا تضاد جو نہ سمجھ آنے والا گورکھ دھندہ ہے،کون صحیح ہے اور کون غلط؟

نواز شریف کی سیاسی تربیت ضیاء الحق نے کی کہ وہ صوبائی کونسل کا حصہ رہے۔1981میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنا دئیے گئے۔آمریت کے زیر سایہ 1985میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے 19اپریل 1985کو پنجاب کے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھایا 31مئی 1988کو جنرل ضیاء الحق نے جو نیجو حکومت بر طرف کی تو میاں نواز شریف کو وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔یہ امر میاں نواز شریف کے جنرل ضیاء الحق سے قریبی مراسم کی نشاندہی کر تا ہے۔ان کا خاندان پچھلے پینتیس سال سے کسی ناں کسی صورت میں اقتدار میں ہے۔ پر لے روز انہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میرا خاندان پاکستان کا واحد خاندان ہے جس نے اقتدار میں آ کر کچھ بنایا نہیں بلکہ سب کچھ کھویا ہے۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ جمہوریت کے بچاؤ،غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کے حوالے سے گفتگو کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے سات سوالات کے جوابات بھی دیتے لیکن انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے خاندان کی غربت کا رونا رویا۔اس وقت شریف خاندان 1.4بلین ڈالر اثا ثوں کا مالک ہے۔قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آپ تو غربت کا رونا رو رہے ہیں آ پ کے پاس اتنے اثاثے کہاں سے آئے؟

نواز شریف کے نو رتن انہیں بند گلی میں دھکیل رہے ہیں۔پرلے روز ان کا ایک کاسہ لیس ایک ٹی وی پروگرام میں کہ رہا تھا کہ آ ج وزیر اعظم صاحب نے حضرت عمرؓ کے دور کی یاد تازہ کر دی اور اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیا راولپنڈی شہر سے تعلق رکھنے والا یہ مالشی پنڈی میں مقیم کشمیری بزنس مینوں سے بھتہ لیتا ہے اگر تاجر بھتہ نہ دیں تو غنڈے بھیج کر انہیں دھمکیاں دیتا ہے اسی طرح کے چاپلوس معاملات سلجھانے کے بجائے الجھا رہے ہیں

ہمارا فر سودہ نظام کرپشن کو فروغ دیتا ہے ،اسے پالتا ہے ۔اسی میں سیاست پروان چڑھتی ہے ۔اسے سیاست دانوں کی مجبوری کہیں یا جمہوریت کی قیمت ،جب ملک فناہ ہو جائے گا نہ ہی جمہوریت رہے گی اور نہ ہی سیاست دان،بڑے بڑے سب اپنی دولت بٹور کر باہر چلے جائیں گے صرف بھوکھی قوم باقی رہ جائے گی،عذاب سہنے کو ،اس لئے وہ کرپٹ نظام کے عادی ہو چکے ہیں۔اسی میں اپنے لئے بھی جگہہ تلاش کرتے ہیں ،چپ رہتے ہیں۔سب ہی ذاتی مفاد کا سوچتے ہیں۔آج چپ رہنے کی سزا ہم بھگت رہے ہیں اور کل اس سے بھی بھاری قیمت ادا کر نی پڑے گی شائد اپنے خون سے۔اس ملک میں ایسے قانون بنائے جا رہے ہیں جس میں تحفظ عوام کو نہیں بلکہ ان لو گوں کو فراہم کیا جا رہا ہے جن کی نظریں عوام کی جیبوں پر ہیں۔یہ کیسا نظام ہے جس میں ایسے شیاطین ہم اپنے سروں پر بٹھانے پر مجبور ہیں؟پھر یہی لوگ اپنے کاروباری میڈیا کے زور پر اس نظام کی بقاء کو قوم کی بقاء قرار دیتے ہیں۔عوام سے کہتے ہیں صبر کرو،وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔تم صبر کرو ہم بے صبری سے تمہارا خون چوستے رہیں گے۔دیکھو کتنا میٹھا ہے۔قوم کو لولی پاپ دے دیا جاتا ہے،

احتساب کی چھلنی لگانی ہے تو پھر اس میں سے حکمرانوں سمیت ہر اس ڈاکو کو گزارا جائے جس نے اس قوم کے پیسے کو شیر مادر سمجھ کر لوٹا ہے۔خواہ وہ جج ہوں یا جر نیل،جرنلسٹ ہوں یا جکاروباری طبقہ اب قوم کو عہد کرنا ہو گا نہیں تو یہ آپ کا خون چوستے رہیں گے اور صبر کی تلقین کرتے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے