افغان طالبان کے رہ نما ملامنصور اختر ڈرون حملے میں قتل، طالبان کی تصدیق

پاک افغان سرحدی علاقے میں ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر محمد منصور سمیت اہم طالبان رہنماؤں کے مارے جانے کی اطلاع ہے،جاسوس طیارے نے گزشتہ روز حملہ کیا ہے.

ڈرون حملہ بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے میں ایک ٹو ڈی کار پر ہوا جس میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے مارے جانےکا بتایا گیا ہے. پینٹاگون نے ملا اختر منصور کے قتل کی تصدیق کی ہے جبکہ سینئر طالبان کمانڈر نے بھی ہلاکت کی تصدیق کی ہے.

امریکی عہدے دار کے مطابق حملے کی اطلاع امریکی صدر باراک اوباما نے دی تھی اور کہا گیا ہے کہ حملے سے قبل پاکستان کے ذمہ داران کو اطلاع دی گئی ہے .

حملہ امریکی فوج نے ہفتے کے روز پاکستانی وقت کے مطابق تین بجے دوپہر پاکستانی سرحدی علاقے میں کیا گیا . متعدد ڈرونز نے کاروائی میں حصہ لیا .

ملا منصور 1963 میں قندھار کے علاقے میوند میں پیدا ہوئے اور ملا عمر کے قریبی ساتھی تھے .


ملااخترمنصور کو افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی وفات کے بعد 13جولائی 2015ء کو امیر بنایا گیا، تاہم ان کے امیر بننے کے اعلان کے ساتھ ہی متعدد اہم طالبان رہنماؤں نے انہیں امیر ماننے سے انکار کردیا تھا۔

ملا اختر منصور دو دسمبر 2015ءکو طالبان رہنماؤں کے اجلاس کے دوران آپس کے تنازع پر فائرنگ کے دوران زخمی بھی ہوئے، تاہم اس وقت ترجمان افغان طالبان کی جانب سے ایسے کسی واقعے کے رونما ہونے کی تردید بھی کی گئی۔

امریکی محکمہ دفاع نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اعلان کیا کہ پاک افغان سرحد پر ایک دور دراز علاقے میں فضائی حملے میں افغانستان کے طالبان کے رہنماء ملا منصور اختر ہلاک ہو گئے ہیں۔

پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کوک نے بتایا کہ امریکی محکمہ دفاع نے پاک افغان سرحد پر ہدف کے عین مطابق کی گئی ایک فضائی کارروائی میں ملا منصور اختر کو نشانہ بنایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر نے اس حملے کی اجازت دی تھی جبکہ پاکستان اور افغانستان کو حملے سے متعلق مطلع کر دیا گیا تھا۔

پیٹر کوک نے بتایا کہ ملا منصور اختر افغانستان میں طالبان کے سربراہ تھے جبکہ وہ افغانستان میں موجود امریکیوں، افغان شہریوں کے ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی اداروں اور اتحادی افواج کے لیے ایک مستقل خطرہ تھے۔

امریکی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملا منصور اختر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی مفاہمت میں بھی سب سے بڑی روکاوٹ تھے، کیونکہ افغانستان میں تنازع کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے امن عمل میں انہوں نے طالبان رہنماؤں کے شریک ہونے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔

پینٹاگون کے مطابق ملا عمر کی ہلاکت کے بعد قیادت سنبھالنے والے ملا منصور اختر کی سربراہی میں طالبان نے کئی حملے کیے، جس میں افغانستان کے ہزاروں عام شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ کئی امریکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔

پیٹر کوک نے بتایا کہ امریکی حکام ابھی بھی فضائی کارروائی کے نتائج کا جائزہ لے رہے ہیں، مزید معلومات ملنے پر اس کو بھی عام کیا جائے گا۔

واشنگٹن میں موجود سفارتی ذرائع کے مطابق ملا منصور اختر کی ہلاکت سے پاکستان کے طاقت ور حلقوں کو کسی بھی قسم کے بڑے خدشات لاحق نہیں۔

ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ملا منصور اختر کے ماضی میں پاکستانیوں کے ساتھ کچھ تعلقات تھے مگر ان تعلقات میں ان کے افغان طالبان کے امیر بننے کے بعد کشیدگی آ گئی تھی۔

پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد بار کوشش کی کہ وہ افغان مفاہمتی عمل میں شامل ہو جائیں لیکن ملا منصور اختر کی جانب سے اس کو قبول نہیں کیا گیا۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ملا منصور اختر کی ہلاکت سے طالبان مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گے، طالبان کے پہلے امیر ملا عمر کی ہلاکت پر طالبان پہلے ہی کئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔

سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ ملا منصور اختر کی ہلاکت کے مثبت اور منفی دونوں نتائج ہوں گے، بعض اوقات ایک متحد اور مضبوط قیادت سے معاملات طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن کئی بار کمزور قیادت سے معاملات آسانی سے طے ہوتے ہیں، اس بات کا انتظار کرنا ہوگا کہ یہ معاملہ اب کس طرف جاتا ہے۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے مفاہمتی کوششیں جاری ہیں اس حوالے سے امریکا، چین، افغانستان اور پاکستان پر مشتمل چار ملکی رابطہ گروپ کے متعدد اجلاس بھی ہوچکے ہیں جن میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا۔

جس میں یہ بھی کہا گیا کہ جو افغان طالبان گروپ مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، تاہم افغان طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کردیا اور افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کی واپسی سمیت بعض شرائط رکھ دیں جس کے بعد سے مذاکرات کا یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے