ملا اختر منصور ایران میں اپنے خاندان سے مل کر آ رہے تھے

امریکہ کے ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی گاڑی کی نشاندہی اُس وقت کی جب وہ ایران میں اپنے خاندان سے ملاقات کر کے واپس آ رہے تھے۔

امریکی روزنامے وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ملا اختر منصور کو پاکستان آتے ہوئے اُس علاقے میں نشانہ بنایا گیا جہاں عمومی طور پر ڈرون حملے نہیں ہوتے ہیں
ایران نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا اختر منصور ایران سے پاکستان میں داخل نہیں ہو رہے تھے۔

وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی ڈرون ایران پاکستان سرحدی علاقے میں کام نہیں کر سکتا تھا۔ اسی لیے انٹیلجینس اطلاعات اور مواصلاتی رابطوں کی جاسوسی کے ذریعے خفیہ اداروں نے ملا منصور کا پتہ لگایا اور سرحدی علاقہ عبور کرنے کے بعد جیسے ہی وہ بلوچستان میں داخل ہوئے انھیں نشانہ بنایا گیا۔

اخبار کے مطابق ملا منصور سفید رنگ کی کرولا گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔

حکام نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ مسلح ڈرون طیارے افغانستان سے پرواز کرتے ہوئے آئے اور گاڑی کو اُس وقت نشانہ بنایا جب طالبان کے رہنما کوئٹہ پہنچنے والے تھے۔

تاہم پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کی سرحد میں داخل نہیں ہوئے ہیں

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ملا اختر منصور کو بلوچستان میں مارنے کا مقصد پاکستان کو خبردار کرنا ہے کہ امریکہ ضرورت پڑنے پر پاکستان کو بتائے بغیر اُس کی سرزمین پر کارروائی کر سکتا ہے۔

اس ڈرون حملے کے بعد امریکی صدر براک اوباما اور امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ امریکہ اُن شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا جو امریکی افواج کے خلاف براہِ راست حملوں کے منصوبے بندی کرتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان نے اپنی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر کو طلب کر کے امریکی ڈرون حملے کی سختی سے مذمت کی تھی۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے امریکی سفیر سے ملاقات میں بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے