دُمڑی کی نتھ ، کدی کن کدی ہتھ

آج مجھے بچپن کی کہانی کا ایک مشہور کردار یا د آتاہے ایک گاؤں میں ایک مراثی خاندان آباد تھا،جب بھی خوشی کا موقع، تہوار، شادی،بیاہ یاکوئی تقریب کاانعقاد ہوتا اس خاندان کی چاندی ہو تی، بصورت دیگر یہ فیملی گاؤں والوں کے رحم و کرم پر ہوتی۔ ان کو گاؤں میں رہنے والے ہر فرد کے متعلق بہت اچھی طرح علم ہوتا۔ اس خاندان کے اندر مردوں کے ساتھ خواتین بھی اس پیشے سے وابستہ تھی۔ ان کیلئے عید کا سماں اس وقت ہوتا جب ان کو علاقہ میں ہونے کسی تقریب کاپتا چلتا،یہ بن بلائے مہمان کی طرح وہاں پہنچ کر لوگوں کو اپنے فن سے محظو ظ کرتے۔جہاں ان کو پیسہ، کپڑے کے ساتھ خوب ڈھیر سارا کھاناباندھ کر دیا جاتا۔ عورتوں کے الگ انتظام کیا جاتا جہاں خواتین گیت ما ہیے ٹپے سناتی۔ اس فیملی کی بڑی وڈیری جس کو گاؤں میں دمڑی کے نام سے جانا جاتا جب کسی تقریب کے لئے نکلتی تو اپنی نتھ کو ہاتھ میں پکڑ لیتی، جس کو کبھی وہ تقریب میں جا کر کبھی اپنے کان میں اور کبھی ناک میں ڈالتی۔گاؤں میں اس کے بارے میں ایک مثل مشہور ہوئی: د مڑی کی نتھ،کد ی کن کد ی ہتھ

آج ہمارے ملک کے سیاسی پارٹیوں کے اندر کئی ایسی دمڑی اور دمڑے موجود ہو ہیں جو صرف اپنے لالچ، مفادات اور اقتد ار کے مزے لوٹنے کیلئے ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ حکمران بھی نظریہ ضرورت کے تحت ایسے افراد کو ساتھ ملا تے ہیں تاکہ حکومت کے پلڑے کا وزن بھاری رہے اور ضرورت پڑنے پر ا ن کو استعمال کیا جائے۔ پانامہ لیکس کے بعد مولانا فضل الرحمن وہ واحد مذہبی و سیاسی لیڈر ہیں جنہوں نے میاں صاحب کو سب سے زیادہ اطمینان و تسلی دی۔ اپنی تمام وفاداریاں ماضی کی طرح اس حکومت کی بھی جھولی میں ڈال دی۔ مولانا فضل الرحمن جو بہت زیرک اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں جو تقریبا ہر حکومت میں اپنے سیاسی قد و کاٹھ کے ساتھ وزن کے مطابق اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

مولانا صاحب بہت سی خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں ان کی سیاسی بصیرت کے کیا کہنے ہیں،مشکل سے مشکل حالات و معمو لات میں حکومت کو اپنے وقت، مشورے، مصالحتی خدمات کے ساتھ اپنے تجربہ کو کیش کراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج کل میاں نواز شریف کے ساتھ انکے خاص قسم کے روابط ہیں۔ مبینہ طور پر یہ حکومت کی ایما پر لندن گئے جہاں مولانا فضل الرحمن نے جناب زرداری صاحب کو حکومت کی طرف سے ڈیل پیکج آفر کیا ہے۔

پیپلزپارٹی کی قیادت چاہتے ہوئے بھی اس ڈیل کو کیشن نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس دفعہ اگر انھوں نے حکومت کیساتھ مفا ہمتی شراکت ڈیل قائم کر لی تو عوام میں ان کی رہی سہی ساخت بھی ختم ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ دھڑکا تحریک انصاف سے ہے جس کا پانامہ لیکس کے اوپر بہت سخت مو قف ہے، جس کی مقبولیت دن بدن عوام میں بڑھتی جا رہی ہے۔ پارٹی قیادت یہ جانتی ہے ا ب اگر انھوں نے فرینڈلی اپوزپشن کا ڈرامہ بندنہیں کیا توآنے والے الیکشن میں ان کا مکمل صفایا ہو سکتا ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن ٹی۔او۔ آر کمیٹی کے اندر ڈیٹ لاک برقرارہے۔

وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف جن کو کافی عرصہ سے دل کا عارضہ ہے ان کی تکلیف بڑھ گئی۔ ہارٹ سرجری کا کامیاب مرحلہ مکمل ہو چکاہے۔ میاں صاحب کی فیملی کے ساتھ شہباز شریف بھی لندن میں مقیم ہیں۔ اللہ تعالی میاں نواز شریف کو صحت و تندرستی عطا فرمائے، وہ جلد علاج و معالج کے بعد پاکستان بخیر و سلامت واپس آئیں۔

پانامہ لیکس کے سکینڈل کے بعد حکومت کی پریشانیوں کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پاکستان کی داخلی اور خارجی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے۔ حکومت کیلئے میزید پریشانیاں بڑھ گئی حال ہی میں امریکہ کے ڈراون حملہ میں طالبان کے سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کے بعدجغرافیائی سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آرمی چیف نے سب سے پہلے امریکہ کے سفیر کو اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جس کے چار دن کے بعد ہمارے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف نے ہمت کرکے حکومتی بیان جاری کیا۔ وائٹ ہاوس سے جاری پیغام میں امریکہ نے واضح طور پر اعلان کیا کہ آئندہ بھی وہ اس قسم کے حملے جاری رکھے گا۔

ملکی کا جمہوری نظام کنفوژن کا شکار ہے۔ صدر مملکت نے دونوں ایوانوں کا اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں صدر کے خطاب کے ساتھ سالانہ بجٹ پیش کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اس سیشن میں بجٹ پیش کرے گئے جس کی منظوری وزیر اعظم صاحب نے ویڈیو لنک کے ذریعے دی۔اس کے بعد کئی قانونی سوالات نے حکومت کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹرین کو جواب دہ بنادیا ہے:

۱) وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں تمام حکومتی فیصلے کی کیاوقعت ہو گی۔

۲) وزیر اعظم کی غیر موجودگی ملک کے اندر قانون کس طرح عمل پذیر ہے؟

۳) وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار جو کہ سینٹ کے ممبرہیں وہ کس حیثیت میں وزیر اعظم کے اختیار ات کا چارج لے سکتے ہیں؟

شریف فیملی کے بعدتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی بھی آف شو رکمپنی کا وجود سامنا آ چکا ہے جو کہ پانامہ لیکس میں ظاہر نہیں ہوئی۔ پانامہ لیکس کے اوپر خان صاحب کا بڑا واضح موقف ہے کہ آف شو رکمپنی کی بنیاد غیر قانونی ہیں۔ اب آگے آنے والا وقت ہی عوامی سوالات کے جوا ب دے گا:

۱) کمیشن کن شقوں کے اوپر بنے گا؟

۲) احتساب کا عمل کا آغاز کہاں سے شروع کیا جائے گا؟

۳) اپوزیشن کے نکات میں سے کتنے پر اتفاق رائے پیدا ہو گا؟

۴) کمیشن کے پاس بیرون ملک کس قسم کے ا ختیار ات ہو ں گے؟

۵) کمیشن کے پاس سزا و جز ا کا کیا ا ختیار ہوگا؟

۶) کمیشن کتنے عرصے میں اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گا؟

۷) اگر حکومتی یا اپوزیشن میں اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکے تو دوسری یا تیسری طاقتیں اس کا حل نکالنے میں اپنا کردار کیسے ادا کرے گی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے