دنیا کی کوئی بھی تہذیب، کلچر اور تاریخ ہیروز اور ان کی داستانوں کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے ۔ہیرو ایک ایسا کردار سمجھا جا تاہے جو مشکلا ت کا مقا بلہ بہادری ، مستقل مزاجی،معاملہ فہمی اور سخت کوشی سے کرے جنگ،امن،کھیل، ادب اور کسی بھی میدان زندگی میں بہترین کاوش اور قسمت کی یا وری سے کوئی انوکھا کارنامہ کسی کو بھی ہیرو کا درجہ دلوا سکتا ہے۔یہ کردار ہر رنگ ،نسل اور علا قے کے لوگوں نے اپنی دیو ما لا یا مرتب تاریخ میں ترا شے اور شامل کئے ہیں۔یونانی دیو مالا تو ہیروز سے اٹی پڑی ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک دیوتا، نیم دیوتا اور انسانی عزم و ہمت کے پیکر آپ کو ان داستانوں میں نظر آئیں گے۔
مرتب تاریخ میں سکندر اور سپا رٹا کے جنگجوؤں کو کون فراموش کر سکتا ہے۔رومیوں نے اپنے عہد کے نئے ہیروز کو جنم دیا جن میں بہا در جرنیلوں سے لے کر گلیڈیٹرز تک ایک لمبی فہرست ہے۔ایسے ہی عیسائیت کے آنے کے بعد نوزائیدہ مذہب کے لئے بے انتہا تشدد برداشت کرنے کے با وجود اس کا پرچار کرنے والوں کا نا م سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ اسلام کی تا ریخ میں بھی ایسے کئی کوہ گراں گزرے ہیں جن کی مثال کہیں اور ملنا مشکل ہے۔نو آبا دیاتی طا قتوں نے بھی اپنی ایمپائرز کے لئے قربانیا ں دینے والوں کواپنی تا ریخ کا حصہ بنایا۔جنگ عظیم اول اور دوئم نے یورپ کی قومی ریا ستو ں کو کئی ہیروز دئیے۔جو آج بھی ان کا قومی ورثہ سمجھے جاتے ہیں۔
جدید زمانے میں ہیروز کی قومی سطح پر تا ئید (acclamation) کے لئے بعد از مرگ یا زندگی میں اعزازدینے کا سلسلہ شروع ہوا ، جیسے ہما رے ہاں نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں کو قومی ہیروز کی فہرست میں بلند ترین مقام حاصل ہوتا ہے اور پوری قوم کے دل میں ان شہداء کے لئے انتہائی عقیدت کا جذبہ پا یا جا تا ہے۔ہر ملک میں ا یسی روایت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
یہ تما م ہیروز لیکن مخصوص جغرافیائی ، کلچرل ،مذہبی اور لسانی سرحدوں سے نکل کر اپنی آب و تاب اور عزت و احترام کھو بیٹھتے ہیں ۔ایک گروہ کا ہیرو مخالفین کا ولن سمجھا جاتا ہے۔تاریخ کے سچ کے بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں لیکن تعصب کے اس سچ کو چیلنج کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے۔ان سرحدوں اور امتیا زات کو توڑ کر سب کا ہیروبننا ایک ایسا کا رنامہ سمجھا جا سکتاہے جو نا قابل یقین جرات بے خوفی نڈر پن اور شاندار قسمت کا متقاضی ہے۔
جب کوئی قوم ہما ری طرح زوال کا شکا رہو تو اس کا ہاں ایسا قحط الرجال آتا ہے کہ بین الاقوامی درجے کے ہیرو پیدا کرنا تو کجا وہ لوکل لیول پر ہی ا س معاملہ میں افلاس کا شکا ر ہوجاتی ہے ۔ پھر یا ر لوگ ہما رے اوسط درجے کے لوگوں کو ایورڈ اور پرو جیکشن دے کر سر با زارتماشا ہی بنوا چھوڑتے ہیں ۔ ہیروز کی اس انٹرنیشنل لیگ میں مغرب کا دامن تو آئن سٹائن سے لے کر مدر ٹریسا کی قبیل کے بڑے انسانوں نے بھرا ہواہے۔لیکن ہم مسلمانوں کی عزت جس عظیم شخص اس لیگ میں بچائے رکھی وہ صرف اور صرف محمد علی کلے تھا۔
محمد علی کا پروفیشنل باکسنگ کنگ ہونا تو کسی تعا رف کا محتا ج نہیں ہے لیکن اس کا اصل کارنامہ اپنی باکسنگ کی شہرت اور عزت کو سچ اور حق کی آواز بلند کرنے کے لئے استعمال کرنا تھا۔ ساٹھ کی دہا ئی میں جب کا لوں کو امریکہ کے اکثر ریستورا نوں میں داخل ہو نے تک کی اجا زت نہیں تھی ،اس وقت کے اولمپک چمپین محمد علی کا اپنا میڈل اس نسل پرست غیر انسانی رویہ کے خلاف دریا برد کرنا علامتی احتجاج کی بہترین مثا ل سمجھی جاتی ہے۔ پھرجب وہ ہیوی ویٹ چمپین بن گیا تو بجائے لائم لائٹ (limelight)انجوئے کرنے کہ،اس نے سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے چلنے والی سول رائٹس تحریک(civil rights movement) میں بھرپورحصہ لے کر اپنے ہم نسلوں کا احساس کمتری دور کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ویت نام کی جنگ میں نہ جا کر اس نے اپنے اپنے باکسنگ کریئر پرپابندی اور ورلڈ ٹائٹل کھونا توگواراکر لیا لیکن امریکی سامراجیت کے خلاف اپنے تئیں آواز پوری دنیا میں بلندکر واکر اپنا نام امن پسندوں میں لکھوا لیا۔ محمد علی کا ایک اور اعزاز اسلام سے جڑا ہے۔امر یکہ اورمغرب کا اسلام کی طرف حقارت اور نفرت جو غلط طور پر نائن الیون کی دہشتگردی کا ریکشن سمجھی جاتی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ سا ٹھ اور ستر کی دہائی میں بھی امریکہ معاشرے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی۔ محمد علی نے اس حقارت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ ساری عمر بھرپور تنقید کے با وجود اسلام کو اپنا یا اور اس پر فخر کیا ۔
محمد علی کی ان حق پرستیوں نے اسے صرف باکسنگ اور امریکہ کا نہیں بلکہ کیوبا سے ویت نام اور مراکش سے انڈونیشیاء تک بسنے والی کئی نسلوں (generations) کا بلا تفریق رنگ ونسل ہیرو بنا دیا۔آج جب پوری دنیا میں محمد علی کی وفات کے بعد خراج تحسین پیشکرنے کا سلسلہ جا ری ہے تویہ نہیں ہورہاکہ وہ سیا ہ فام ہے تو گورے اسکو گلوریفائے نہیں کر رہے یا وہ مسلمان تھا تو دنیا کے دوسرے مذاہب کے ماننے والے اسے ڈس کریڈٹ کر رہے ہوں بلکہ آج سب اس کو مشترکہ انسانی ورثہ مان کر سوگوار ہیں۔
یہی محمد علی ہمارا اصل ہیرو ہے جو ہر اس تعریف پر پورا اترتا ہے جوآج تک کسی بھی تہذیب اور تاریخ نے ہیرو کے لئے ڈیفائن کی ہے۔چند دن پہلے اسکے انتقال سے دنیا تو شاید ایک عظیم شخص کے وجود سے محروم ہوگئی ہو لیکن یہ سبق وہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گیا ہے کہ اگرخود پر پڑنے والی سپاٹ لائٹ(spotlight) کو پرسنل پروجیکشن کی بجائے حق کے پرچار اور مظلوموں کی داد رسی کے لئے استعمال کروگے توشاید وقتی طور پر عتاب کا شکار ہو بھی جاؤلیکن اس کے بعد جوسچی عزت ملے گی وہ کسی آسکر،نوبل پرائز ہولڈر او ر ورلڈ چمپیئن کو شایدخوابوں میں بھی نصیب میں نہ ہو۔