اتحاد بین المسلمین ، وقت کی اہم ترین پکار

ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِينً۬ا‌ۚ
ترجمہ !! آج میں نے تمہارے لیئے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام ہی کو بطور دین پسند کر لیا ہے ۔ (سورۃ المائدہ ۳ )

دین کی تکمیل تو اس آیت مقدسہ کے ساتھ ہی ہو گئی تھی ، اور پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی سنت، تعلیمات، قرآن کریم اور ان کی روشنی میں صحابہ کرام کا طرز عمل سے دین پر عمل کرنے کی سوجھ بوجھ عوام الناس میں آئی ۔

[pullquote]مگر اس کے بعد کیا ہوا؟
[/pullquote]

جب اسلام پھیلا تو جس طرح قریش اور عرب سے باہر جاتے ہی قرآن کریم کئی ایک قرآتوں میں پڑھا جانے لگا جس سے اس کے مفاہیم تبدیل ہونے کا اندیشہ ہوا ، لیکن کیونکہ وہ اپنی قرات اور اپنی زبان کے مطابق قرآن پڑھتے تو تھے لہذا ان مختلف قراتوں کو پڑھنے والوں کی نیت اور ایمان پر شبہ عبث ہے ،کیونکہ وہ اس کلام کی صداقت پر بھی مکمل یقین رکھتے تھے ، اور پھر حضرت عثمان نے ایک قرات پر سب کو جمع کر کے اس اندیشے کا سد باب کر دیا، بعینہٖ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا ، آپ ﷺ کی ذات با برکات سے فیض یاب ہوئے ، کسی صحابی نے نبی کریم ﷺ کو اپنی آخری سانسوں میں دیکھا ، تو کسی نے آنکھ ہی نبی کریم ﷺ کے ذانو مقدس پر کھولی ۔

ہر صحابی نے نبی کریم ﷺ سے مختلف مقدار میں فیض حاصل کیا ، اور اس کے مطابق عمل فرمایا ، جیسا کہ ارشاد ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر چیز پر عمل کیا جائے ، ضروری یہ ہے کہ جتنا عمل کیا جائے اس میں کاملیت اختیارکی جائے اور فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی سے اجتناب کیا جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی بہتری کی بات نہیں ۔

تو جب صحابہ کرام دنیا بھر میں پھیل گئے تو ان میں بھی ان کی تعداد کے بقدر بے انتہا طریقوں سے نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرنے اور اس پر قائم رہنے کا ذوق پختہ ہو گیا ، مثلاً کسی نے نبی کریم ﷺ کو صرف حج کے موقع پر دیکھا ، تب نبی کریم ﷺ نے ظہرین اور مغربین ادا فرمائی ، تو ان صحابی نے نماز کو اسی اسلوب پر پڑھنا شروع کر دیا ، اور کیوں کہ یہ سنت سے ثابت ہے لہذا اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ، اسی طرح کسی صحابی نے نبی کریم ﷺ کو رفع یدین فرماتے دیکھا ، تو اسی پر قائم ہوگئے ، کسی نے نبی کریم ﷺ کو دو ذانوں بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا ، کسی نے نبی کریم ﷺ آٹھ تراویح پڑھتے دیکھا کسی نے بیس ، کسی نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے ہاتھ کھول کر نماز ادا فرمائی کسی نے ہاتھ باندھے نبی معظم کو نماز پڑھتے دیکھا ،کسی نے باآواز بلند قرآن پڑھتے سنا تو ذکر جہر کا پابند ہو گیا کسی نے ذکر خفی کا مشاہدہ فرمایا تو ذکر خفی پر کاربند ہو گئے ۔

الغرض جس نے جو مشاہدہ کیا ، اسی سنت کو اپنا عمل بنا لیا ، تب کےبعد ، پہلی چار صدیاں ، مختلف اندازہائے شریعت یا صحیح الفاظ میں سنت اختیار کئے جاتے رہے ، عوام الناس صحابہ ، تابعین اطبع طابعین کو جیسا عمل کرتے پاتے ان کی اطاعت کرتے ، اس طرح ہوا یہ کہ ابتداء میں ہی یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ امت میں بے انتہا فرقے بن جائیں گے ، اس کے سد باب کے لئے چند شخصیات آگے آئیں، انہوں نے کوشش کی کہ تمام دینی احکامات کو اکٹھا کیا جائے ، مذکور ائمہ کرام کے علاوہ بھی بہت سی بزرگ شخصیات قابل ذکر ہیں جنہوں نے دینی احکامات کو اکٹھا کیا ، مگر کیوں کہ سب سے زیادہ اور قابل ذکر کام امام جعفر صادق، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی، امام احمد بن حبنل اور امام مالک کا ہے لہذا انہی کا نام لیا جاتا ہے۔ اپنی تحقیقات، اجتہاد اور مدون علم کے متعلق ان شخصیات نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ جو طریقہ کار، یا جو اعمال و احکام میں نے مختلف صحابہ ، طابعین یا اطبع طابعین سے حاصل کئے ہیں وہی حرف آخر ہیں اور ان کے علاوہ کوئی حکم ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اس ضمن میں امام ابو حنیفہ کا قول موجود ہے کہ اگر میرا کوئی قول کسی ضعیف حدیث سے بھی متصادم ہو تو میرے قول کو اٹھا کر دیوار پر دے مارو اور حدیث پر عمل کرو۔

ہاں مگر ایک بات اظہر من شمس ہے ، ان تمام شخصیات کا اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ رب کائنات خدائے بزرگ و برتر اللہ کریم کی ذات وحدہ لاشریک ہے ، جنت دوزخ کے متعلق بھی ان تمام ائمہ کے نظریات ایک ہیں، نماز روزہ کی فرضیت کی بابت، قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی بابت، فرشتوں اور یوم قیامت پر ایمان بارے تمام ائمہ میں سو فیصد اتفاق پایا جاتا ہے۔ تمام عبادات و فرائض پر بھی مکمل اتفاق ہے، فرق صرف ادائیگی کے طرز میں ہے ، وہ بھی مستند حوالہ جات کی مدد سے سنت سے ثابت شدہ تو تمام انداز ہائے ادائیگی درست ثابت ہوئے۔

فرق ہے تو صرف ان امور پر جن پر عمل کرنے یا نہ کرنے سے کوئی بھی شخص دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ، مثلاً اگر امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایک شخص نماز میں آمین بالجہر کرتا ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا ، جبکہ امام شافعی کے نزدیک اگر کوئی شخص آمین بالجہر نہیں کرتا تو بھی اس کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ۔ یا اگر ایک امام کے نزدیک رفع یدین کرنا درست ہے تو بھی تمام ائمہ کے نزدیک رفع یدین کرنے یا نہ کرنے سے مومن کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا، الغرض کسی بھی اختلافی معاملے کو اٹھا لیجئے ، اور اس پر غور فرمایئے ، ان میں سے کوئی بھی ایسا امر نظر نہیں آئے گا کہ جس کے باعث ایک مسلمان کے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ کسی بھی امام کے بتائے ہوئے طرز کو اختیار کر لے کوئی فرق نہیں پڑتا ، یہ ان ائمہ کی خلوص نیت اور جذبہ صادق اور رب کریم سے سچی لو ہی تھی جس کے باعث یہ بات بجا طور پر کہی جاتی ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی پیروی اختیار کر لو، فلاح پا جاؤ گے اور وہ لوگ جو کچھ بھی نہیں جانتے ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ بجائے قیاس پر عمل کرنے کے ان ائمہ کے کام پر اکتفا کریں اور ان میں سے کسی کے بھی راستے پر چلیں ، ان شاء اللہ فلاح پا جائیں گے ۔

مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہ ہے کہ غور و فکر اور تدبر کی راہ کو بند کر دیا گیا ہے ، صاحب علم و صاحب شعور کو زندگی کی ہر منزل پر غور کرنے کا حکم دیا گیا ہے قرآن کریم کی تمام آیات پر فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اسی طرح سنت اور احادیث کی حکمت اور ان کے مختلف زاویوں سے متعلق غور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اجتہاد کا دروازہ آج بھی کھلا ہے ، اگر کوئی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قرآن اور حدیث کے مفاہیم بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں تو ان کے لئے یہ افضل ہے کہ وہ اپنی سمجھ کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر اس پر عمل کریں ، ناکہ مستعار شدہ احکامات پر ، لیکن کیونکہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے خاص طور پر زندگی کے تمام شعبہ جات میں ایسا کرنا ایک شخص کےلئے بہت مشکل ہے لہذا جتنا اجتہاد آپ کر سکتے ہیں کریں ، اس کے بعد آپ کو باقی احکامات کے لئے کسی نہ کسی امام کی تقلید کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔۔۔
عرض ہے کہ انسان کو جیسے جیسے اللہ کریم دین کی سمجھ عنایت فرماتے ہیں وہ فرقوں کی زنجیروں سے آزاد ہوتا چلا جاتا ہے ، آپ سب کو دعوت ہے کہ کم از کم دین کے بنیادی احکامات کو سمجھیں، واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ، پر پوری طرح عمل کریں ، اور کسی بھی صورت میں فرقے میں نہ پڑیں ، کہ یہ اللہ کریم کا واضح حکم ہے ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد بھی کہ دیکھو میرے بعد فرقوں میں مت پڑ جانا آپس میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔ تو کیوں ہم ان اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں جن کی بناء پر کوئی بھی شخص کسی بھی لحاظ سے ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ ایمان سے خروج کی تو باقاعدہ وضاحت کے ساتھ چند شرائط متعین فرما دی گئی ہیں کہ اسلام کے بنیادی شعائر و احکامات کا صریح انکار اور ان کے خلاف عمل ہی اسلام سے خارج کر سکتا ہے جیسے خدائے وحدہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، نبی آخر الزماں کے بعد کسی اور کو نبی ماننا، یا قرآن کے بعد کسی بھی کتاب کو اللہ کا کلام سمجھنا اور اسی طرح کے بنیادی احکامات جن پر تمام امت کا مکمل اتفاق ہے۔

تو آئیے ، اتحاد بین المسلمین کی جانب ، آُپس کے اختلافات کو مٹائیے ، اگر آپ کا بھائی ہاتھ کھول کر نماز پڑھتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ہی رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھیں ، سجدہ تو اسی رب کو کرنا ہے ، سنت تو انہیں رسول معظم ﷺ کی ادا کرنی ہے کہ جو وجہ تخلیق کائنات ہیں، تو کیوں ایک سنت ادا کرنے والے کو دوسرا سنت ادا کرنے والا کافر کہے؟ کافر تو ہمیں مسلمان سمجھ کر ہی قتل کرتے چلے آئے ہیں چودہ صدیوں سے ، انہوں نے تو کبھی کسی کو اس بناء پر زندہ نہیں چھوڑا کہ فلاں کو ہم نے کافر کہہ دیا ہے لہذا وہ کافر ہے ، انہوں نے تو ہر اس شخص کو قتل کیا جو ایک خدا اور رسول ﷺ کا کلمہ پڑھتا ہے ،
موجودہ دور میں ، وقت کی اہم ترین پکار اتحاد بین المسلمین ہے، اتحاد کی صورت میں ہی ہم اپنی نشاط ثانیہ حاصل کر سکتے ہیں ، اپنی گمشدہ میراث علم و حکمت حاصل کرسکتے ہیں، اپنے رب کریم کی رضا اور عنایات کے خزانوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ، اور اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کی شفاعت کے سچے اہل اور حقدار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بارگاہ میں اس اطمینان سے کھڑے ہونے کا شرف حاصل کر سکتے ہیں کہ ہم ان کی امت کو پارہ پارہ کرنے والوں میں سے نہیں ، بلکہ اختلافات ختم کرنے والوں میں سے ہیں ۔۔۔!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے