مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی، جاں بحق افراد کی تعداد 23 ہوگئی

جنوبی کشمیر کے بہت سے علاقوں میں پیر کو بھی کرفیو جاری ہے. انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جمعے کی شام علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی لہر کے خلاف انڈین فورسز کی کارروائیوں میں اب تک 23 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
پرتشدد واقعات میں ڈھائی سو افراد زخمی ہیں جن میں 90 سے زائد پولیس اور نیم فوجی اہلکار شامل ہیں۔

حکومت نے پرتشدد واقعات پر قابو پانے کے لیے جہاں مزید فورسز تعینات کی ہیں اور کرفیو لگا رکھا ہے وہیں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئی ہیں۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان تازہ تصادم کے نتیجے میں ہونے والی فائرنگ میں اتوار کو رات گئے تک پانچ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ، پہلے مظاہروں میں زخمی ہونے والوں میں سے پانچ لوگوں کی اتوار کو موت واقع ہو گئی ہے۔

اتوار کو تازہ تصادم میں کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں
ان واقعات میں ایک پولیس اہلکار کی موت ہوئی ہے جن کی گاڑی کو مشتعل ہجوم نے اننت ناگ ضلعے میں دریائے جہلم میں گرا دیا۔ ذرائع کے مطابق ریاستی حکومت کی جانب سے کی جانے والی امن برقرار رکھنے کی اپیل کا کوئی اثر نظر نہیں آ رہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں زخمیوں کی تعداد کے پیش نظر اور موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بند کیے جانے سے کشمیر میں ایمرجنسی جیسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
کشیدگی پر قابو پانے کے لیے انڈین حکومت نے نیم فوجی اہلکاروں کی تازہ کُمک کو سرینگر بھیجا ہے۔ یہ اعلان حکومت ہند کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے سنیچر کی رات کو کیا تھا اور اب انھیں مختلف حساس مقامات پر تعینات کر دیا گیا ہے۔

ہسپتال میں زخمیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہنگامی صورت حال کی تشویش ظاہر کی گئی ہے
وزیرداخلہ نے وزیراعلی محبوبہ مفتی کو فون پر بتایا: ’مرکز کشمیر میں حالات ٹھیک کرنے کے لیے آپ کی ہرممکن امداد کرے گا۔‘

راج ناتھ سنگھ اور دوسرے بی جے پی رہنماوں نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے، تاہم وادی میں ہند مخالف جذبات کی لہر تشویشناک سمت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

سرکاری اطلاعات کے مطابق کشمیر وادی کے دس اضلاع میں فی الوقت دو لاکھ سے زائد بھارتی افواج، 70 ہزار نیم فوجی اور 60 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

اسی بیچ آر ایس ایس کے رہنما اور کشمیر میں بی جے پی کی حمایت والے حکمران اتحاد کے مشیر رام مادھو نے اپیل کی ہے کہ مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ’نان لیتھل‘ یعنی غیر مہلک طریقے اپنائے جائیں۔

کشمیر میں احتجاج کی لہر زور پکڑتی جا رہی ہے
سنیچر کو ہی وزیراعلی محبوبہ مفتی نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا غیرمتناسب استعمال کیا گیا۔
پولیس کی خفیہ ونگ کے سربراہ ایس ایم سہائے نے کہا تھا: ’ہم اپنے ہی معاشرے کے لوگوں کو نہیں مار سکتے۔‘

جنوبی کشمیر کے 40 ایسے نوجوان ہیں جن پر جمعے کی رات سے اتوار کی دوپہر تک پیلیٹ فائر کیے گئے ہیں ۔ شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے ڈاکڑوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کم از کم 20 ایسے ہیں جو بینائی سے محروم ہوسکتے ہیں۔

علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے جبکہ جگہ جگہ غائبانہ نماز بھی ادا کی گئي۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعے کی رات کو جنوبی کشمیر کے دمحال ہانجی پورہ کے پولیس تھانے سے جو تین پولیس اہلکار لاپتہ ہوگئے تھے، ان کا ابھی تک سُراغ نہیں ملا ہے۔ چونکہ وادی میں سکولوں اور کالجوں میں 17 جولائی تک گرمیوں کی تعطیلات ہیں، تاہم تمام امتحانات اور سرکاری نوکریوں کے لیے مجوزہ امتحانات اور انٹرویوز کو پہلے ہی ملتوی کیا گیا ہے۔

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کو سینٹر جیل میں قید کیا گیا ہے، جبکہ میرواعظ عمرفاروق، شبیر شاہ اور سید علی گیلانی سمیت درجنوں علیحدگی پسندوں کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے