8000 ترک پولیس اہلکار معطل، سپیشل فورسز تعینات

[pullquote]ناکام فوجی بغاوت کے بعد پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 ارکان کو استنبول میں تعینات کر دیا ہے— ترک حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا ہے جبکہ پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 ارکان استنبول میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔[/pullquote]

ناکام بغاوت کے بعد سے ترکی میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔

[pullquote]فوجی بغاوت: امریکا اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ؟
[/pullquote]

انقرہ : ترکی میں عوام نے فوجی بغاوت کی کوشش ناکام بنانے کے بعد صدر رجب طیب اردگان کی حمایت میں ریلی نکالی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق باغی فوجیوں اور عوام کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 265 تک پہنچ گئی ہے جن میں 161 عام شہری اور پولیس اہلکار جبکہ 104 باغی شامل ہیں۔

بغاوت کی کوشش میں 2 ہزار 745 ججز اور 2 ہزار 839 فوجیوں کو ملوث قرار دیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔

ترک صدر طیب اردگان نے استنبول میں اپنے گھر کے باہر جمع ہزاروں حامیوں سے خطاب میں کہا کہ فوجی بغاوت کی کوشش کرنے والے انہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔

طیب اردگان نے کہا کہ ملک کو گولن کی تحریک سے بہت نقصان پہنچا ہے اور میں امریکا سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ یا فتح اللہ گولن کو گرفتار کرے یا پھر ترکی کے حوالے کرے۔

اپنے بیان میں ترک صدر نے کہا کہ انہوں نے امریکی صدر براک اوباما کو بارہا اپنے اس خدشے سے آگاہ کیا ہے کہ فتح اللہ گولن ترک سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور اسے ترکی کے حوالے کیا جائے۔

اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ میں ایک بار پھر امریکا اور صدر اوباما سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس شخص کو ڈی پورٹ کریں یا پھر ہمارے حوالے کریں جو پنسلوانیہ میں 400 ایکڑ کے گھر میں رہتا ہے۔

اردگان نے کہا کہ اگر ترکی اور امریکا اسٹریٹیجک پارٹنرز ہیں تو امریکا وہ کرے جو ضروری ہے، ترکی نے کبھی دہشتگرد کی حوالگی کی امریکی درخواست رد نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ فوج ہماری ہے، ایک باغی گروہ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی اور ان کے اس اقدام سے ہمیشہ فوج کے اندر صفائی کا موقع ملا ہے۔

[pullquote]ترکی اور امریکا کے تعلقات کشیدہ؟
[/pullquote]

ترکی میں فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک سیاستدانوں نے امریکا میں جلا وطنی کاٹنے والے فتح اللہ گولن پر اس کا الزام عائد کیا۔

بعض ترک رہنمائوں نے تو براہ راست امریکا ہی پر الزام لگادیا۔

امریکی وزیر خارجہ نے ان الزمات کو سختی سے مسترد کردیا ہے اور بیان جاری کیا ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہونے کا دعویٰ بالکل غلط اور باہمی تعلقات کیلئے نقصان دہ ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے ترک ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا فوجی بغاوت کی تحقیقات میں ترکی کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا اور گولن کے خلاف ملنے والے شواہد ترکی کو دے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا گولن کی حوالگی کی ترک درخواست پر اسی وقت عمل کرے گا جب ترکی ان کے خلاف کوئی ثبوت فراہم کرے گا۔

امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ترک حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت فتح اللہ گولن کی حوالگی کیلئے امریکا سے باضابطہ درخواست کی تیاری کررہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں گولن کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد بھی امریکا کو دیے جائیں گے۔

[pullquote]حالات حکومت کے کنٹرول میں آگئے.
[/pullquote]

ترک صدر رجب طیب اردگان نے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا کہ حالات مکمل طور پر حکومت کے قابو میں ہیں اور تمام ریاستی اداروں کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی ترکی میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا اور حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ باغیوں سے نمٹنے میں قانون کی پاسداری اور عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ترکی میں فوج کے باغی گروپ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اُس وقت ناکام بنادی گئی تھی جب صدر رجب طیب اردگان کی کال پر عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

عوامی طاقت کے سامنے بے بس فوجیوں نے مختلف مقامات پر ہتھیار ڈال دیے تھے جنہیں پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔

ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کے مطابق بغاوت میں ملوث 2839فوجیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ ملک بھر میں ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 265ہوگئی ہے جبکہ 1154 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

قبل ازیں ترکی کے قائم مقام چیف آف اسٹاف امیت دندار نے بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 194 ہے جن میں 41 پولیس اہلکار، 47 عام شہری، 2 فوجی افسر اور فوجی بغاوت کرنے والے 104 افراد شامل ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ فوجی بغاوت میں ایئرفورس، ملٹری پولیس اور آرمر یونٹس کے زیادہ تر اہلکار شامل تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کا باب ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا ہے۔

فوجی بغاوت کی کوشش ناکام ہونے کے بعد پاکستان نے بھی ترکی سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔

وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے ترک وزیر خارجہ سے بات کی اور انہیں پاکستان کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھی ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی اور ترک صدر طیب اردگان کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔

وزیر اعظم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ فوجی بغاوت کے خلاف ترک عوام کا کردار قابل ستائش ہے، یہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش تھی جسے عوام نے ناکام بنادیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے