قراردادالحاق پاکستان:حقیقت یاافسانہ؟

ھاف مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا اور انہوں نے لاعلمی کے باعث اس یوم سیاہ کے لئے ۱۹ جولائی کا دن مقرر کیا ، اس کا سوشل میڈیا پر ایک دم چرچا ہوا، کشمیر کے حکمرانوں نے ردعمل کااظہارکیا اور تاریخ بدلوا دی ، کیونکہ ۱۹ جولائی کو ہم کشمیر ی ’یوم قرارداد الحاق پاکستان ‘ مناتے ہیں ، ہمیں ہماری ناکافی قسم کی پڑھائی جانے والی تاریخ میں ایک سبق یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ءکو مسلمانان کشمیر نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد منظور کی تھی ، جس میں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ کشمیر کی تاریخ دلچسپ واقعات اور عجیب و غریب تضادات سے بھری پڑی ہے ، جس میں سے ایک 19 جولائی کا یہ واقعہ بھی ہے ، جس پر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں

کہا جاتا ہے کہ یہ قرارداد ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ کو منظور کی گئی ، اس وقت کشمیر میں دو بڑی سیاسی جماعتیں تھیں ، مسلم کانفرنس جس کے صدر چوہدری غلام عباس تھے ، اور نیشنل کانفرنس جس کے صدر شیخ عبداللہ تھے ، اس کے علاوہ کئی چھوٹی جماعتیں تھیں ، لیکن صف اول کی جماعتیں یہی دو تھیں ، اس وقت ان دونوں جماعتوں کے سربراہ گرفتار تھے ۔ ۱۹۴۶ سے چوہدری غلام عباس نے ایک تحریک ’تحریک آزاد کشمیر کے نام سے شروع کر رکھی تھی جس کے بارے میں ان کے تا حیات سیکرٹری بشیر قریشی اپنی کتاب ’قائد کشمیر ‘ کے صفحہ نمبر ۹۰ پر لکھتے ہیں کہ
’ ۱۹۴۶میں تحریک حریت کشمیر ایک ایسے سنگ میل پر آ پہنچی تھی جہاں سے قائد ملت نے آزاد کشمیر کا نعرہ بلند کر کر کشمیری مسلمانوں کو ایک فیصلہ کن شاہراہ پر ڈال دیا ‘ آزاد کشمیر کا لفظ چاہے پنڈت پریم ناتھ بزاز نے پہلے استعمال کیا ہو ’آزاد کشمیر‘ کی تحریک رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نے ہی شروع کی تھی ، اسی آزاد کشمیر کے لئے کوشش کرتے ہوئی چوہدری غلام عباس گرفتار ہو گئی ،

اس وقت ان کے قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ تھے ، ۱۸ جولائی ۱۹۴۷ کو سری نگر میں ہی مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس چوہدری حمیداللہ کی سربراہی میں ہوا جس میں ’قراردادا ٓزادکشمیر‘ منظور کی گئی ، اس اجلاس میں دو سو کے لگ بھگ لوگ شریک تھے ، جس میں سے چند لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور دوسرے دن چوہدری حمیداللہ کی غیر موجودگی میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی گئی ، شنید یہ بھی ہے کہ اس اجلاس میں صرف ۲۰ لوگ شریک تھے چوہدری غلام عباس نے اپنی اس کتاب میں اس قرارداد کا کہیں زکر نہیں کیا ، وہ اس وقت جیل میں ضرور تھے ، لیکن یہ واقعہ کوئی اتنا غیر معمولی نہ تھا کہ غلام عباس جیسا شخص اس کا ذکر نہ کرے ، چوہدری غلام عباس کا اس قرارداد کا زکر نہ کرنا بھی اس قرارداد کی حیثیت پر سوالیہ نشان ہے

سردار ابراہیم مرحوم اس وقت مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے رکن ضرور تھے لیکن مجلس عاملہ میں کسی خاص عہدے پر نہ تھے ، وہ اس وقت ممبر قانون ساز اسمبلی تھے ، سوال یہ ہے کہ چوہدری حمیداللہ جو اس وقت قائم مقام صدر تھے اور ان کی غیر موجودگی میں اور منظوری کے بغیر یہ قرارداد مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کیسے منظور ہو گئی . یہ بڑا سوال ہے .

اگر یہ قرارداد منظور ہو گئی تھی تو اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بحث کرتے ہوئے سردار ابراہیم نے اس قرارداد کے مسودے کو بطور قانونی دستاویز استعمال کیوں نہیں کیا ، بلکہ اس قرارد کا ذکر بھی کسی کارروائی میں نہیں کیا۔ اور انڈیا جب نام نہاد الحاق کی دستاویز کو بنیاد بنا کر کشمیر کو اپنا ’اٹوٹ انگ‘ کہتا ہے تو اس قرارداد کو اس کے جواب میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا ۔اپنی خواہشات کے مطابق تاریخ میں قطع برید کرنے والے اس سوال کا جواب دے پائیں گے؟

قرارداد کا متن کچھ اس طرح ہے ’ریاست کے عوام پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہبی ، ثقافتی و اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا جائے . یہ کنونشن مہاراجہ سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کو داخلی طور پر مکمل خودمختاری دی جائے اور مہاراجہ کو ریاست کا آئینی سربراہ تسلیم کرتے ہئے ایک نمائندہ قانون ساز اسمبلی تشکیل دی جائے اور دفاع امور ، خارجہ اور مواصلات کے محکمے پاکستان دستور ساز اسمبلی کے سپر د کئے جائیں‘ ریاست میں ضم کرنے کا مطالبہ یہاں بھی نہیں ہے ، داخلی خود مختاری کا مطالبہ ہے ، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر ایک الگ ریاست ہونے کے (قانونی طور پر ) باوجود آج تک داخلی خودمختاری نہیں لے سکی ۔

اس پورے منظر میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر کے جغرافیائی، ثقافتی و اقتصادی رشتے پاکستان کے ساتھ ہونے کے علاوہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کے لوگ پاکستان سے بے پناہ پیار کرتے ہیں ۔ آج بھی وہ اپنی جان پر کھیل کر مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا پرچم بلند کرتے ہیں ، یہاں جن کو قوم پرست بھی کہا جاتا ہے ان میں سے بھی سب کے سب پاکستان کے خیرخواہ ضرور ہیں ، امان اللہ خان مرحوم جو قوم پرستوں کے رہنما تھے وہ بھی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے تھے ،

مختصر یہ کہ کشمیریوں کی پاکستان اتنی بڑی حقیقت ہے جس کے لئے کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے ، تو پھر قرارداد الحاق پاکستان جیسا ناکافی تاریخی شواہد کا حامل کمزور سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی ، اگر یہ غیر حقیقی نہیں تھی تو اس کو اقوام متحدہ میں بطور قانونی دستاویز پیش کیوں نہیں کیا گیا جبکہ سردار ابراہیم بذات خود وہاں موجود تھے۔ بہت سادہ الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لئے اس طرح کے بوگس بہانوں کی ضرورت ہے ہی نہیں ، اگر یہ قرارداد عالمی سطح پر ایک قانونی دستاویز کے طور پر کشمیریوں کے کام نہیں آ سکتی تو علاقائی سطح پر ااس کا پرچار ایسا ہے کہ جیسے کوئی ماں کو بتائے کہ اس کا بچہ کون ہے ، یا بچے کو سکھائے کہ ماں سے پیار کرنا ہے ، یہ سب فطری ہے اور قرارداد کے بغیر بھی ایسا ہی ہونا ہے ۔

کشمیر کی تاریخ اس طرح کے تضادات سے بھری پڑی ہے خطہ کا متنازعہ ہونا ، مختلف آرا کی حامل کتابوں پر پابندیاں لگ جانا ، ہر ایک طبقہ فکر کا اپنی رائے کے صحیح ہونے پر اصرار کرنا اور مورخین کا غیر جانبدار نہ ہونا اس طرح کے تضادات کو جنم دیتا ہے ۔ بعض مشہور غیر ملکی ، غیر جانبدار مورخین جن کا کشمیر پر کام قابل ذکر ہے جیسے کہ وکٹوریا سکوفیلڈ ، جنہوں نے چھوٹے سے چھوٹے واقعے کو بھی اپنی کتاب میں ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے ، وہ بھی اس طرح کے اکثر واقعات پر خاموش ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے