کابل خود کش حملہ :50 ہلاک

کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خود کش دھماکے میں 50 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق ہزارہ برادری کی جانب سے کیے جانے والے احتجاجی مظاہرے میں خود کش حملہ کیا گیا۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق کابل میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اربوں ڈالر کے پاور پروجیکٹ کے مجوزہ روٹ کے خلاف مظاہرے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے۔

اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کئی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں جن میں دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

افغان وزارت صحت کے ترجمان محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ زخمیوں اور لاشوں کو استقلال ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار گھنٹے سے ہزارہ برادری کا احتجاج جاری تھا جس کے بعد مظاہرین احتجاجی کیمپ لگانے کی تیاریاں کررہے تھے ، اسی دوران زور دار دھماکا ہوگیا۔

واضح رہے کہ بجلی کے مذکورہ منصوبے کے خلاف ہزارہ برادری کا یہ دوسرا احتجاج ہے اور اس میں پرتشدد واقعات کا خدشہ پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا۔

یہ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا حمایت یافتہ ہے اور اس میں ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں.

اس منصوبے کا ابتدائی روٹ بامیان صوبے سے ہوکر گزررہا تھا جہاں ہزارہ برادری کی اکثریت ہے تاہم 2013 میں اس وقت کی حکومت نے اس کا راستہ تبدیل کردیا تھا.

مظاہرے میں شریک رہنمائوں نے روٹ کی تبدیلی کو ہزارہ برادری کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا.

مظاہرے میں شامل افراد افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے خلاف نعرے لگارہے تھے اور امتیازی سلوک مردہ باد اور تمام افغان باشندوں سے یکساں سلوک کا مطالبہ کررہے تھے.

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں کابل میں افغان پولیس کے قافلے پر خودکش حملے کے نتیجے میں 27 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے جبکہ 20 جون کو بھی کابل میں نیپالی سیکیورٹی گارڈز کی بس میں ہونے والے دھماکے کے نیتجے میں 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے جس میں تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔ بعض اوقات میڈیا کو ملنے والی ابتدائی معلومات درست نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ ہم متعلقہ اداروں، حکام اور اپنے رپورٹرز سے بات کرکے باوثوق معلومات آپ تک پہنچ سکیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے