کابل: مظاہرین پر خودکش حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 91 ہوگئی

[pullquote]دولتِ اسلامیہ مشرقی افغانستان میں سر گرم ہے لیکن اس سے پہلے کابل میں ہونے والے کسی حملے کی ذمہ اس نے قبول نہیں کی تھی۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہزارہ برادری کے احتجاج پر خودکش حملے میں مرنے والوں کی تعداد 91 ہوگئی ہے اور ملک میں اتوار کو سوگ منایا جا رہا ہے۔[/pullquote]

دوسری جانب اقوام متحدہ نے خودکش حملے میں عام شہریوں پر حملے کو’ جنگی جرم قرار دیا ہے۔

خودکش حملے میں کم از کم 91 ہلاکتوں کے علاوہ 230 سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔

خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم سے روابط والی نیوز ایجنسی اعماق کا کہنا ہے کہ دو خود کش حملہ آوروں نے کابل میں اہل تشیع کے احتجاج میں اپنے آپ کو اڑا دیا۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا مقصد بظاہر ملک میں فرقہ وارانہ جھگڑا شروع کرانا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے نائب سربراہ ٹیدامچی یوکوموٹو نے ایک بیان میں حملے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے بالخصوص بڑی تعداد میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔
ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد بجلی کی سپلائی کے منصوبے میں مجوزہ راستے کے تعین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

افغانستان کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ صرف ایک خودکش بمبار اپنے آپ کو اڑانے میں کامیاب رہا۔ افغان انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دولت اسلامیہ کے ابو علی نامی کمانڈر نے ننگرہار صوبے سے تین حملہ آوروں کو بھیجا تھا۔

دوسری جانب افغان طالبان نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ انھوں نے نہیں کیا۔ دولتِ اسلامیہ مشرقی افغانستان میں سرگرم ہے لیکن اس سے پہلے کابل میں ہونے والے کسی حملے کی ذمہ داری اس نے قبول نہیں کی تھی۔

ہزارہ برادری اس بات پر ناراض ہیں کہ منصوبے میں جن راستوں کا انتخاب کیا گیا ہے اس کی وجہ سے ہزارہ آبادی والے علاقے نظر انداز ہو رہے ہیں۔

صدر اشرف غنی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’پرامن مظاہرہ کرنا تمام شہریوں کا حق ہے لیکن موقع پرست دہشت گردوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور معصموم لوگوں کا قتل کیا جن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔‘

کابل میں ایک صحافی نے بی بی سی کو بتایا کے ہر طرف خون اور انسانی اعضا بکھرے ہوئے ہیں۔

اس احتجاج کے لیے شہر کا ایک بڑا حصہ سیل کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے جو بینر اٹھا رکھے تھے ان پر تفریق کے خاتمے سے متعلق نعرے درج تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ترکمانستان سے آنے والے بجلی کی لائن ہزارہ آبادی والے علاقے بامیان اور وردک صوبوں سے ہو کر نہیں گزر رہی۔

شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ افغانستان میں تیسرا بڑا گروہ ہیں۔ اور یہ زیادہ تر ملک کے وسطی حصوں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلسل نسلی تفریق کی شکایت کرتے ہیں خصوصاً نوے کی دہائی میں طالبان حکومت کے دوران۔ ان میں سے بیشتر پاکستان، ایران اور تاجکستان نقل مکانی کر گئے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے