چھ کروڑ سال

کچھ عرصہ قبل راقم کینیا میں دریافت ہونے والے تیس لاکھ سال سے زائد پرانے کھوپڑی کے فوسل متعلق جاننے کی کوشش کر رہا تھا. یقیناً یہ فوسل ایک بار پھر انسانیت کے پیچیدہ ارتقاء کا ثبوت ہے. آج سے چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل "سینوزویک عہد” (CENOZOIC ERA) کا آغاز ہوا تھا. یہ عہد براعظموں کے علیحدہ ہونے، بڑھنے اور ٹکرانے کا عہد تھا. اُس عہد میں نئے ماحول اور حالات بھی پیدا ہوئے. سینوزویک عہد کے ابتدائی دو کروڑ برسوں کے دوران درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہوا اور ایک اشنکٹبندیی زون (TROPICAL ZONE) وجود میں آیا. اُس عہد میں ہی ممالیہ (mammals) یعنی دودھ دینے والے جاندار برق رفتاری سے ارتقاء پاگئے تھے. اُن ممالیہ جانداروں نے ناپید ہوتے رینگنے والے جانوروں کے خالی ماحول کو پُر کیا تھا. آج سے تقریباً چار کروڑ سال پہلے بندر، ہاتھی، سور، سمندر گائے، گھوڑے، وہیل مچھلی، چمگادڑ، کترنے والے جانداروں کے ساتھ ساتھ کئی پرند اور پودے پیدا ہوئے.

آج اِس وقت ممالیہ جانداروں کی مسلسل اور کامیاب ارتقاء جانداروں کی شاہانہ نوع "حضرت انسان” تک آ پہنچتی ہے. مگر یہ سب یوں آسان اور سادہ نہیں ہے، بلکہ پیچیدہ اور گنجلک کہانی ہے جو حیات و ممات کے علاوہ بار بار نمودار ہونے کے بعد پھر سے ناپید ہونے کی داستان ہے. ارتقاء کے سفر میں جانداروں کے ناپید ہونے کے اہم ادوار تیز ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں. سینوزویک عہد کے ابتدا میں جو درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوا تھا وہ آج سے چار کروڑ سال قبل کم ہونا شروع ہوا، اور پچاس لاکھ سال قبل گھٹتے گھٹتے موجودہ درجہ حرارت پہ آ گیا. درجہ حرارت کے اُس اتار چڑھاؤ کے سبب کئی ممالیہ انواع ناپید ہوتی گئیں.

جبکہ بندر جس سے آگے چل کر بن مانس اور انسان نے ترقی حاصل کی پوری دنیا میں پھیل گئے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلیاں اِن انواع کیلیے بہتری کا سامان کر رہی تھیں. یہ امر قابل ذکر ہے کہ نئے (موسمی) حالات نے بنیادی طور پہ افریقہ اور یورو ایشیا کو متاثر کیا تھا. یوں سینوزویک عہد کے آخری 150 سے 200 لاکھ برسوں میں ممالیہ خصوصاً بندروں نے خاصی تیز-رفتار ارتقاء کو اپنایا تھا. ماہرینِ رکازیات (palaeontologist) کے مابین اِس بیانیے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کونسا مقام تھا جہاں بندر اور ابتدائی انسان ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر الگ الگ نوع بن گئے.

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ آج سے ڈیڑھ کروڑ سال پرانی بندروں کی ہڈیاں جو افریقہ اور یورو ایشیا سے ملی ہیں موجودہ دور کے بندروں کی ہڈیوں سے مماثلت رکھتی ہیں. یہ جاندار ہی موجودہ بندروں، گوریلوں اور انسانوں کا جد محسوس ہوتا ہے.

آج سے ستر لاکھ سال قبل دنیا میں مزید موسمیاتی تبدیلیاں ہوئیں. انٹارکٹکا اور آلاسکا پہلے ہی برف کی چادر اوڑھ چکے تھے. درجہ حرارت میں مزید کمی کے سبب برف کی چادر پھیلنے لگی اور سمندر کی سطح بھی کم ہونے لگ گئی. اُس عہد میں سطحِ سمندر میں تقریباً 150 میٹر کی کمی ہوئی تھی جس کے سبب خشکی کے ٹکڑوں میں اضافہ ہوا، براعظم آپس میں جڑ گئے، اور جانداروں کے مزید پھیلاؤ میں وسعت آئی. بحیرہ روم مکمل طور پر بخارات بن کر اڑ گیا. جبکہ خط استوا کے ارد گرد موسم بہت خشک ہو گیا جس کے نتیجے میں جنگلات میں کمی واقع ہوئی، صحرا اور بےآب زمینوں میں اضافہ ہوا. ایشیا اور افریقہ کے درمیان صحرا حائل ہو گیا، افریقی بندر اپنے ایشیائی کزنز سے جدا ہو گئے. بلاشبہ اُس عہد میں کئی انواع کے جاندار ناپید ہو گئے اور کئی دوسری انواع نے جنم لیا. یہی وہ عہد ہے جب ممالیہ اپنی بہترین ارتقائی شکل اختیار کر رہا تھا اور بندر نما انسان اپنی ابتدائی شکل میں سامنے آیا جس کیلیے ہیومینڈ (homind) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے.

عمومی رائے یہی ہے کہ انسان کا ارتقاء افریقہ میں ہوا تھا. ترپن لاکھ سال قبل بحریہ روم نے موجودہ وضع اختیار کی اور اُسی دور میں بندر سے گوریلا اور ابتدائی بندر نما انسان نے ارتقاء پائی. اُن تینوں انواع یعنی بندر، گوریلا اور ابتدائی انسان کی علیحدہ علیحدہ وضع قطع مشرقی افریقہ میں ماحولیاتی دباؤ کے نتیجے میں چالیس لاکھ سال قبل واقع ہوئی.

یہاں پر اہم سوال جنم لیتا ہے کہ آخر بندر، گوریلا اور ابتدائی انسان نے علیحدہ علیحدہ وضع قطع کیوں اختیار کی؟ اُس دور میں گلیشیر شمالی افریقہ تک پھیل گئے نتیجتاً مشرقی افریقہ کے موسم میں بھی تبدیلی واقع ہوئی. مشرقی افریقہ بارشیں کم ہو رہی تھیں، موسم خشک ہو گیا اور جنگلات کم ہونے لگے. اب بندر کی نوع کیلیے صرف تین راستے بچ گئے تھے.

1. جو طاقتور اور ہنر مند تھے وہ جنگل کے بیچوں بیچ رہنے لگے، کم از کم وسائل سے اپنے لیے خوراک کا بندوبست ممکن بنانے لگے، اِس نوع کو ہم گوریلا کہتے ہیں.

2. بدرجہ کمزور جنگل کے کناروں پہ چلے گئے، اپنے تحفظ کیلیے درختوں سے ناتا نہ توڑا مگر خوراک کیلیے زمین پہ چلنے لگے، آج اِس گروپ کو ہم چمپنزی کے نام سے جانتے ہیں.

3. کمزور ترین اور غیرہنرمند ترین گروہ کو خوراک کی تلاش میں مجبوراً جنگل سے باہر منتقل ہونا پڑا. یہ حفظ ما تقدم کے طور پہ گروہ میں رہتے اور خوراک کی تلاش میں لمبے سفر کرنے لگے. یہی گروہ ابتدائی انسان کا روپ دھار رہے تھے. یہی جنگل سے دوری اور پیدل سفر کرنے کی مجبوری ہی اِس گروہ کو باقی بندروں اور گوریلوں کی نسبت چار کی بجائے دو پیروں پہ چلنے پہ مجبور کر رہی تھی. یہی مجبوری اِس کرہ زمین پہ جانداروں کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ کہلانے کا مستحق ہے کہ جاندار نے چار کی بجائے دو پیروں پہ چلنا شروع کیا تھا. چھلانگ لگا کر کسی چیز یا دوسرے جاندار کو پکڑنے کیلیے اچھلنے کی مجبوری کے دوران نظر کا ارتکاز اہم کردار ادا کرتا ہے. اِسی مجبوری نے ابتدائی انسان کی آنکھوں کی جگہ اور بناوٹ میں ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا. یہی وجہ ہے کہ انسانی کھوپڑی دوسرے بندروں کی نسبت آہستہ آہستہ گولائی اختیار کرتی گئی. چپٹی کھوپڑی کی بجائے گول کھوپڑی کی وجہ سے دماغ بڑا ہو گیا اور جبڑے چھوٹے ہو گئے.

ثبوت کے طور پہ مشرقی افریقہ سے ملنے والی پینتیس لاکھ سال پرانے ابتدائی انسان کے فوسل دیکھے جا سکتے ہیں، جو چار کی بجائے دو پیروں پہ چلتے تھے، اُن کے انگوٹھے انگلیوں سے جدا اور مخالف سمت میں ہیں. لیکن موجودہ انسان نے اُس ابتدائی انسان سے کب اور کیسے الگ شکل اختیار کی؟ اِس سوال کا جواب میرے اگلے مضمون کا عنوان ہوگا، کیونکہ اِسی سوال سے سماجی ارتقاء کا موضوع شروع ہوتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے