ایمانداری بمقابلہ جمہوریت

پچھلے چند دنوں سے پاکستان کی سیاسی فضاء پر جس بے یقینی کے بادلوں نے ڈھیرا ڈالا تھا ۔ کرپشن کے خلاف برسرِ پیکار کچھ سرپھرے جس انداز میں جمھوریت کے نسل کش نام نہاد علمبرداروں کو تلاشی کے نام پر پریشان کر رہے تھے اور جس انداز میں اپنے کرسی کی بچاؤ میں جمھوریت کے نام پر بدنماء دھبے لگا کر حکومتِ وقت اپنے حقیقی خیر خواہوں مگرنظری مخالفین کو نشانِ عتاب بنارہی تھی اس سے یقیناًسلجھے ہوئے اور جمھوریت پسند دوستوں کا پاکستان کے ان جمھوری اقدار پر ماتم کرنے کو دل کر رہاہوگا۔مگر پھر بھی آج جس بھونڈے اور بے ڈھنگے انداز میں کرپشن کے خلاف برسر، پیکار جماعت نے پسپائی کا راستہ اختیار کیا۔ اس سے یقیناًمحبِ وطن پاکستانیوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا ۔ کہ بھلے ملکی دولت لوٹنے والے وقتی طور پر پھر بچ گئے اور بے شک کرپشن کے خلاف کھڑے لوگ فرعونیت سے ٹکرائے بغیر لڑکھڑا گئے۔ کہ انکا مقصد حق کا علم بلند کرنا نہیں بلکہ اپنے حریفوں سے مسندِ اقتدار چھیننا تھا۔ لیکن مفاد و ذات پرستی کے اس جنگ میں پاکستان کم از کم ایک اور شرمندگی، نقصان اور جمھوریت کے نام پر ایک اور جگ ہنسائی سے بچ گیا۔

یہ احساسات دل و دماغ کی دنیا میں ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں۔ کہ میں نہ تو کسی جماعت کا نمائندہ ہوں اور نہ ہی میں سرل المیڈا کی طرح کسی صحافتی ہیجان خیزی کا متلاشی ریٹنگ اور تہلکہ خیزی کا خواہاں ہوں۔ نہ تو میں کسی کے کھوکھلے نعروں کے حُسن کا اسیر ہوں اور نہ ہی میں شاہ کے دربار کا ثناء خوان ہوں۔ میں ایک عام پاکستانی ہوں اور اپنے ملک سے ہزاوروں میل دور بیٹھ کر اپنے ملک کے ان ناخداؤں کے ظلم بے حسی اور ملک سے محبت کے نام پر ملک سے بیر و شقاوت پر ماتم گسار ہوں۔

میں نہ تو کسی تبدیلی کے جذباتی نعروں کے سحر میں جکڑا ہوا پارٹی کا ایک گمنام اور بدقسمت کارکن ہوں۔ اور نہ ہی سڑکوں، ٹرینوں اور بجلی کے منصوبوں کے دلفریب نعروں کا شیدائی ہوں اس تلخ حقیقت سے قطع نظر کہ ان خوبصورت سڑکوں ٹرینوں اور میگا پراجیکٹ کے سائے تلے غربت، افلاس اور مجبوری ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی زندگی کی بنیادی سہولتوں کی بھیک مانگتی روزانہ اپنی عزت اور جان پر کھیل جاتی ہے۔ بلکہ میں پاکستان سے کوسوں دور ایک ہنرمند دل میں وطن کی محبت کی شمع جلائے ایک محنت کش پاکستانی ہوں۔ جسکی نہ تو مے فئر میں اربوں کی جائداد ہے اور نہ دبئی کی بلند و بالا عمارتوں میں عوام کے سرخ خون سے آلودہ کوئی عالی شان عمارت ہے۔بلکہ میں وہ ہوں جو کہ اپنی دن رات ایک کرکے ان خونخواروں کے لوٹے ہوئے عوام کی خوشحالی اور آسودگی کے لئے اپنی جمع پونجی اپنے ملک پر اربوں روپوں کی صورت میں بھیج کر نچھاور کرتا ہوں۔

میں جب ملک کی محبت کا چشمہ لگا کر سیاست کے میدان کے ان مفاد پرستوں کے قول و فعل پر غور و فکر کرتا ہوں،۔ تو سوائے افسوس اور ماتم کے اور کچھ میرے پاس نہیں ہوتا۔ایک وہ ہے جودیانت کی زندہ ء جاوید تصویر بن کر لٹیروں اور ملک و قوم سے خیانت کرنے والوں کا احتساب کرنے نکلا۔ لیکن اسکا اپنا دامن ایمانداری ، امانت اور وفا کی موتیوں سے خالی ہے۔کہ پچھلے تین سالوں سے اس صوبے کی حکومت ان کے پاس ہے ۔ جسکی پچھلی حکومت کے کرپشن کی داستانیں ہم نے ان امینوں کی زبانی بہت بار سنیں۔ اور اس سے پہلے حکومت انکی جنکو آج بھی یہ ایماندار اس طرح یاد کرتے ہیں کہ انکے ضمیر و وفا کی چابی پیسہ ہے ۔بلکہ اخلاقی گراؤٹ سے بے خبر ڈیزل کے طعنے بھی دئے جاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ خیانت اور کرپشن صرف ملک کے وزیرِ اعظم کی قابلِ تعزیر ہے یا ہر اس شخص کی جسنے ملکی خزانہ لوٹا؟ دوسرا سوال یہ کہ مرکز میں حزبِ اختلاف میں رہ کر وزیرِ اعظم کو کٹہرے میں لانا آسان ہے۔ یا اس صوبے کے کرپٹ سیاستدانوں کے گریبان تک پہنچنا جہاں ان ایمانداروں کی حکومت ہے؟لیکن پچھلے تین سالوں میں نہ تو سیاستدانوں میں اور نہ ہی بیوروکریسی میں ان کو ایک ایسا انسان ملا جسکا دامن خیانت، کرپشن اور بے ایمانی کے داغوں سے بھیگا ہو؟؟؟؟یا پھر انکا مقصد کرپشن کو پکڑنا نہیں بلکہ کرپشن کی آڑ میں اپنے حریفوں سے منصب عظمی کا چھیننا ہے؟؟؟ ا نکے کردار پر نظر ڈالتا ہوں تو وفا، ایمانداری اور امانت کے الفاظ جب انکے زبانی سنتا ہوں تو ہنسی اور ماتم کا ملا جُلا احساس ضمیر و فکر کو زخمی کرتا ہے۔

امینوں کے قافلے کے قائد کی پارلیمان میں دلچسپی اتنی کہ پورے پارلیمان میں غیر حاضری اور عدم دلچسپی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر رہے۔ لیکن ایمانداری اور قوم سے محبت اتنی کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کے ٹیکسوں سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات میں مجال ہے کہ کوئی چھوٹ اس قوم کو ملی ہو؟

لئکن پھر بھی انکے ساتھیوں کا حُسنِ ظن ہے کہ چونکہ کے پی کے میں کوئی چور، خائن، ڈاکو،لٹیرا اور ملکی دولت لوٹنے والا ملا نہیں۔ لہذا قائدِ امانت نے مرکز پر اپنے غوث و ابدالوں کے ساتھ دھاوا بول دیا۔یہ احساس اسلئے نہیں ابھرا کہ جسکے خلاف وہ صف آرا ہوئے میں انکا مداح یا ثناء خوان ہوں۔بلکہ صرف اسلئے کہ دل کی سچائی کے ساتھ اگر حقائق دیکھوں تو یہ حقیقتیں سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔ ورنہ اقتدار کی مسند پر تو وہ بیٹھے ہیں۔ کہ جنکی پرورش ایک آمر کی گود میں ہوئی ۔جسکو سیاست کی گھٹی اس نے پلائی جو سیاسی عمل کے قتلِ عمد کا مرتکب ہوا۔ جسکے مزاج میں آج بھی وہی آمریت اور شاہانہ انداز بطریقہ اتم موجود ہے ۔جسکے نقاد اور گواہ وہ سب بیباک اور حق گو ہونگے جنکو اس دارِ شاہی سے کسی تمغے یا صلے کی فکر نہ ہو۔ملک و قوم کی غربت سے الیکٹ ایبلز کی زور پر نبرد آزماء یہ طالع آزماء ایک عرصے سے جمھوریت کے آبِ زم زم سے دولت و طا قت کے بل بوتے پر نہا تو لئے مگر جمھوریت کے معنی ، جمھوریت کی حقیقت، جمھوریت کا حقیقی رنگ ان لوگوں کی زندگی سے کوسوں دور ہے۔عوام کی خدمت کا راگ الاپنے والے اور خود اپنے آپ کو عوامی خادم کہلوانے والے اپنی نا اہل اور غیر عوامی اولاد اور رشتہ داروں کو عوام پر اسلئے مسلط نہیں کرتے۔ کہ حکومت کی جاگیر کہیں کسی اور کے گھر منتقل نہ ہوجائے۔

پانامہ لیکس میں قائد کے خاندان کے ملوث ہونے اور چوری کے دولت کا غیر قانونی انبار لگانے کے واقعے طشت از بام ہوئے تو اس جماعت کا کمال ڈھٹائی کے ساتھ اپنے آپ کو پاک و صاف قرار دینا اور احتساب کے عمل سے حیلے بہانوں کے ساتھ کترانا بہت سے سوالات ذہن کے پردے پر چھوڑ دیتا ہے
مجھے پانامہ لیکس کو کُریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ اس حکومت میں ترقی کا عمل صرف ان منصوبوں کا نام ہے۔ جنکے ساتھ کاروباری حضرات کے مفادات جڑے ہوئے ہوں؟؟؟کیا آج بھی تعلیم، صحت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک منصوبہ بھی اورنج ٹرین یا سولر پارک کے اربوں روپوں کے برابر پاکستان کے کسی غریب علاقے کے محنت کشوں کو دیا گیا؟؟ اگر کہیں اعلان بھی ہوا تو عمل کے لئے آنکھیں ترس کے رہ گئیں۔کہ شائد تعلیم ، صحت کے منصوبوں سے لندن اور دبئی کی جائدادوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوپائیگا۔

سو غوث و ولی کی اس لڑائی میں چور کون ہوگا اور مخلص کون ہوگا۔ یہ فئصلہ اگرچہ وقتی طور پر عدالت کے سپرد کیا گیا کہ شاید اسی میں دونوں کی بھلائی اور چور چور کے اس بھدے کھیل کی عافیت ہے۔ لیکن میری نظر میں عوام کے ساتھ اس بھونڈے اور خیانت اور جھوٹ پر مبنی مذاق کا فیصلہ جب تک عوام خود نہیں کریں گے۔ تب تک انکے احساسات وجذبات کے ساتھ ایمانداری، جمھوریت اور ملک دوستی کے نام پر ملک کے ناخدا کھیلتے ہی رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے