دہشت گردی!آپریشن! دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے!، آخری دہشت گرد تک جنگ جاری رہے گی۔۔۔! حکومتی دعوے۔۔۔!
پتہ نہیں چلتا، سمجھ میں نہیں آتا! ٹوٹی کمر والے دہشت گرد کیسے اتنی آسانی سے حملہ کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کرجاتے ہیں۔!
ان لوگوں کی دہشت گردی کی ہر نئی کارروائی ہمارے حکمرانوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی لاتعداد کامیابیوں کے دعوے پر ایک قسم کی طنزیہ سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے ۔
ہر دہشت گرد حملے کے بعد پھر وہی معمول کے مطابق اجلاس بلائے جاتے ہیں۔ وہی ہوتا ہے جو اصل سے ہوتا آیا ہے. وہی بیانات اور عزائم دھرائے جاتے ہیں کہ شہیدوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے!، پھر دہشتگرد حملہ، سینکڑوں جانیں ضائع، کئی زخمی۔ سب کچھ ویسا ہی ہوا ہے فرق محض جائے واردات اور تاریخ کا ہے، مگر سیاسی و عسکری قیادت کے بیانات اور عزائم وہی ہوتے ہیں جو ہر ہونے والے ہولناک واقعے کے بعد دیے جاتے ہیں۔
کوئٹہ کے سول ہسپتال کے اندر دھماکے کا غم ابھی تازہ تھا، اوپر سے اسی شہر کے سریاب روڈ پے واقع پولیس سینٹر میں دھماکا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں 61 ریکروٹ شہید اور 120 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔!
یہ وہ شہر ہے جو طویل عرصے سے دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ یہاں وقفے وقفے سے ہونے والی دہشتگرد کارروائیوں نے اس شہر کو ہلا دیا ہے۔ یہ وہی شھر ہے اور وہی روڈ ہے جہاں پر اگست کے مہینے میں اسی سانحے کی طرح ایک بڑا ہولناک سانحہ برپا ہوا تھا۔ بلوچستان بار کے صدر پر حملے کے بعد سول ہسپتال میں وکلا اور سول سوسائٹی کے لوگوں پر دھماکا کیا گیا۔ جس کے باعث 70 افراد جاں بحق اورایک سو سے اوپر زخمی ہوئے تھے۔
جون میں اسی سریاب روڈ پر دہشتگرد کارروائی میں چار اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ستمبرمیں اسی ہی جگہ پہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے باہر ہونے والے دھماکے میں دو پولیس اہلکار اپنی زندگی گنوا بیٹھے، جب کہ دو زخمی بھی ہوئے تھے۔
اس سال کے جنوری مہینے میں چارسدہ کی یونیورسٹی میں حملہ ہوا تھا۔
ایک ہی شہر میں تھوڑے عرصے میں دہشتگردی کی اتنی کارروائیاں بہت سارے سوالات چھوڑ جاتی ہیں۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیکیورٹی کے انتظامات بھی اچھے نہ تھے۔ جس کی وجہ سے دہشتگرد باآسانی آ کر اپنا ٹارگٹ حاصل کر گئے۔
یہاں دہشتگردی کا سبب محض دہشتگردوں کا منظم ہونا نہیں، بلکہ اس کے ساتھ وہ نرسریاں بھی ہیں۔ جن میں سے دہشتگرد تربیت پا کر جدید ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں سے اسی قسم کی کارروائیاں کر جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک نرسریوں کو مٹا نہیں جاتا، تب تک دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
ہر دہشت گرد حملے کے بعد اس بار بھی معمول کے مطابق اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں سویلین اور عسکری قیادت کی موجودگی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو تیز اور بلاتفریق کارروائی کرنے کا فیصلہ ہوا۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا آپریشن ( جو کہ پہلے سے شروع ہے) سست رفتاری کا شکار تھا، جو اب اس کو تیز کیا جائیگا؟ اگر دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں اب سے شروع کی جائیں گی، تو اس سے پہلے دہشت گروں کے اندر اچھے اور برے کا فرق برقرار تھا؟
آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان بھی جاری ہونے کے باوجود بھی ایسے ہولناک سانحےواضع طور پہ اس بات کی عکاسی کر رہے کہ ناسور بنی ہوئی دہشت گردی کے خلاف پرعزم سیاسی اور عسکری قیادت سے ضرور کچھ باتیں رہ گئی ہیں، جس کی یہ اچھے اور برے والی روش واضع مثال ہے۔
یہاں پہ دہشت گردی کے خلاف واویلا تو کیا جاتا ہے مگر اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالی نہیں جاتی۔ بات یہ ہے کہ اگر اچھے اور برے کا فرق جاری رہے گا تو اس ملک کے اندر امن و امان کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔
دہشت گردی کے خاتمے اور امن وامان کے قیام کے لیے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنی ہوں گی، اور اپنے پڑوس کے ممالک کے ساتھ ساتھ چلنا اس وقت کی اشد ضرورت ہے۔