شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ بیسویں صدی عیسویں کے سب سے عظیم مسلم مفکر، شاعر ، ، قانون دان، اور صاحب بصیرت سیاسی رہنما ، اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیت تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نواز ا تھا۔ اردو اور فارسی شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام ان کی بنیادی وجہ شہرت بنا۔ تاریخ کے اوراق ان کی بصیرت، فراست، معاملہ فہمی اور دوراندیشی اور قوم سے خیرخواہی کی گواہی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ شاعر مشرق اور مفکر اسلام تو تھے ہی ، لیکن اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے۔ سیاست درحقیقت انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے، جس کی بدولت انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جنہوں نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گو نا گو نی رنگا رنگی پیدا کی اوراقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز، باعث کشش اور جاذب نظر بنا دیا،اس کاباعث اقبال کی علمی و ادبی اور تعلیمی کوششوں سے زیادہ مذہبی رجحان بنا۔
اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت ، بلندی فکر و خیال، سوز، درد کشش اور جاذبیت نظر آتی ہے، ان کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے ، جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں۔اور یہی ان کی طاقت و قوت اور حکمت و فراست کا منبع اور سرچشمہ ہے، لیکن اقبال کا وہ یقین و ایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں ، جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا’’ یقین‘‘ عقیدہ و محبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب و وجدان، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ و تصرف اس کی دوستی و دشمنی غرضیکہ ساری زندگی پرچھایا ہوا تھا ، یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت راسخ الایمان تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا ء درجہ کا تھا، اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم رشد و ہدایت کے آخری مینار ،نبوت و رسالت کے خاتم اور مولائے کل ہیں۔
دورمادیت اور مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک و دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ، حالانکہ اقبال نے جلوہ دانش فرنگ میں زندگی کے طویل ایام گذارے اس کی وجہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت ، جذبہ عشق اور روحانی وابستگی تھی۔ اور بلاشبہ ایک حبِّ صادق اور عشقِ حقیقی ہی قلب و نظر کے لیے ایک اچھا محافظ اور پاسبان بن سکتا ہے۔ بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم،کثرتِ معلومات اور ذکاوت و ذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں یا ایک دوسرے پر فضلیت رکھتے ہیں ، اور اسی طرح شعراء کو ان کی فطری قوت شاعری،لفظوں کا حسن انتخاب ، معانی کی بلاغت ، انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے اور مصلحین وقت اور قائدین ملت کی بلندی و پستی ان کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی پر موقوف ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی فضلیت و بلندی کا دارومدار محبت و اخلاص پر ہے،ان کی سچی محبت اور مقصد سے اخلاص کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے، کہ مقصد و موضوع اور غرض و غایت روح میں سرایت کر جاتی ہے قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے،اور فکر و عمل پرچھا جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت تحلیل ہو جاتی ہے ، اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے،جب کچھ لکھتا ہے، تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے، غرضیکہ اس کے فکرو خیال ،دل و دماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔ کلام اقبال کے بغور مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعراء سے بہت کچھ مختلف ہے ، اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس قلب و وجدان اور اعصاب میں حرکت و حرارت ، سوز و گداز، درد و تپش پیدا کرتا ہے، اور پھر ایک ایسا شعلہ جوالہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں ، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں ڈھیر،بلکہ جل کر فنا ہو جاتی ہیں،اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقت ور ایمان، پر درد و پر سوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ۔
اقبال کی شخصیت کو بنانے والا ا عنصر درحقیقت وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھر میں موجود ہے،مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم،اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں ،میری مراد قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب ہی اثر انداز ہوئی ہے ۔اقبال کا ایمان چونکہ ’’نو مسلم‘‘ کا ساتھا ، خاندانی وراثت کے طور پر انہیں نہیں ملا تھا، اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف،اور شعورو احساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت ہی مختلف رہا ہے ، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کا یہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعد نماز فجر قرآنِ مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، اقبال کے والد جب انہیں دیکھتے تو فرماتے کیا کر رہے ہو؟ اقبال جواب دیتے ابا جان !آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں ، اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ اور پھر جب سارا عالم خواب غفلت میں پڑا سوتا رہتا اس اخیر شب میں اقبال کا اٹھنا اور اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا ، پھر گڑگڑانا اور رونا، یہی وہ چیز تھی جواس کی روح کو ایک نئی نشاط اس کے قلب کو ایک نئی روشنی اور اس کو ایک نئی فکرکی غذا عطا کرتی پھر وہ ہر دن اپنے دوستوں اور پڑھنے والوں کے سامنے ایک نیا شعر پیش کرتے، جو انسانوں کو ایک نئی قوت ، ایک نئی روشنی اور ایک نئی زندگی کی راہ دکھاتا۔
غرضیکہ علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گذاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے ، قرآن بولتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ، اس سے انہیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ، جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا ، ان کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی ، اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لدنی علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیات انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبہ پر بھی اسے لگائیے ، فوراً کھل جائے گا، یہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے۔ اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی تمام تر عقل اور فلسفہ دانی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ہے۔ اقبال کے ذہن میں عشق و مستی کا اوّل اور آخری محور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ