رقص گاہیں یا قتل گاہیں

دوغلاپن ،منافقت کا دوسرانام ہے۔دورُخی نے معاشرہ کوتقسیم درتقسیم کرکے ہماری شناخت ہی کوکجلاکررکھ دیاہے۔حالت یہ ہے کہ ’’نہ اِدھرکے رہے ،نہ اُدھرکے رہے‘‘ہم اپنے تئیں خالق کو بھی خوش رکھنا چاہتے ہیں اورحضرتِ ابلیس کے ساتھ بھی یاری بہ شرطِ استواری کے متمنی ہیں۔یعنی باغباں بھی خوش رہے اورراضی رہے صیادبھی۔ آج جب رقص وسرود کی تربیت کے حوالے سے کچھ خبریں نظرسے گزریں تواُردوشاعری کا بے تاج بادشاہ غالب بہت یادآیا کہ جس نے اپنے آپ کو ’’آدھاانگریز‘‘کہتے ہوئے یہ اعتراف کیاتھا کہ ’’میں شراب تو پیتاہوں،مگرسؤرنہیں کھاتا۔‘‘ہمارادعویٰ سچے مسلمان اورپکے پاکستانی ہونے کا ہے،مگرکردار بدباطنی کی چغلی کھاتاہے۔کیا ہوگیاہے ہمارے دل ودماغ کو!کہ جو حق قبول کرنے سے انکاری مگرباطل سے یاری چاہتے ہیں۔خودبھی نافرمانیوں اوربغاوتوں کی زندگی گزاری اوراب اپنی نسلوں کو بھی طاغوت کی غلامی میں دے کر انہیں بے موت مارنے کے درپے ہوگئے ہیں۔کاش کوئی تو حق کی آوازپر لبیک کہہ کر باطل کے منہ پر زناٹے دارتھپڑ رسیدکرتا۔ہمارامستقبل ،ہماری نوجوان پودتعلیمی سرگرمیوں کی بجائے بے ہنگم اچھل کود اورناچ گانے کی دلدادہ کیوں ہوتی جارہی ہے؟

کوئی تو پاکستان کے سنہری مستقبل کو موسیقی کی تانوں اوررقص کی قوسو ں میں گم ہوجانے سے بچالے ۔کوئی تو اِس قوم کو سمجھائے کہ تاک دھنادھن تاک اورسارے گاما،پا دھا نی سا،کے سہارے گوِیّااوررَقاص تو بنا جاسکتاہے ،ترقی ہرگزنہیں کی جاسکتی ۔این رجل الرشید؟افسوس !کہ سرکاری سرپرستی میں فنون لطیفہ کے نام پر میٹھا زہر کھلاکر، معصوم بچوں کوطبلے کی تھاپ پر تھرکاتے ہوئے اندھی راہوں کا مسافر بنایاجارہاہے۔ ایک اخباری سروے کے مطابق :’’صرف ایک شہر لاہور میں پبلک سیکٹر میں2 اورپرائیویٹ سیکٹر میں 12 کے قریب ڈانس اکیڈمیاں ہیں۔ ان کے علاوہ پندرہ سے بیس نوجوان لڑکوں کے ڈانس گروپ ہیں۔ پبلک سیکٹر میں ایک الحمرا اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ اور دوسری نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ ہے جو شاکر علی میوزیم میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے زیر انتظام ہے ۔‘‘

حال ہی میں جب سندھ کے بعض نجی تعلیمی اداروں میں رقص پر پابندی کی خبریں آئیں تو وزیراعلیٰ سندھ نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی،کیونکہ موسیقی اور رقص کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور وہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے ۔‘‘کوئی اس بھلے مانس سے کہے کہ حضور!ہم مادرپدر آزادمعاشرہ نہیں ہیں اورنہ رقص وموسیقی ہمارے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ہم پاکستانی ہیں،اسلامی معاشرہ رکھتے ہیں اورپاکستان لالہ الاللہ کی حکمرانی ہی کے لیے وجودمیں لایاگیاتھا۔اسلام ہی ہماری اوّل وآخری منزل ہے۔اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اپنی بعثت کا ایک مقصد آلاتِ موسیقی کو توڑناقراردیاتھا۔بت سازی،موسیقی،رقص ،سنگ تراشی،مصوری اورجیسے’’ فنونِ لطیفہ‘‘ زمانہ جاہلیت میں اپنی انتہاپرتھے ۔ اسلام آنے کے بعداُن کی کسی بھی درجہ میں کوئی اہمیت باقی نہیں رکھی گئی،بلکہ دین و فطرت سے انحراف پر مبنی لہوولعب کے تمام حیلوں کا راستہ بندکردیاگیا۔ہم سوزوساز اوررقص وسرود کو فنِ لطیفہ قراردے کر معاشرہ کو کس رُخ پر ڈالناچاہتے ہیں؟موسیقی نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں تک پر اَثرات مرتب کرتی ہے۔

سچ کہاسیّدعلی ہجویریؒ نے کہ جو شخص یہ کہتاہے کہ مجھ پر موسیقی کا اثرنہیں ہوتا،وہ پاگل ہے، یاجھوٹاہے۔موسیقی غم وحزن سے لے کر جنسی ہیجان تک کے جذبات ابھارتی ہے۔حدیث مبارکہ ہے کہ’’ گانا دل میں نفاق اس طرح اُگاتا ہے ،جیسے پانی کھیتی اگاتا ہے۔‘‘رقص کومعاشرے کی کلیدگرداننے والے رہنماذرااِس خبرپر بھی غورفرمائیں کہ مغرب خودکس حدتک رقص سے گریزپا ہورہاہے: ’’برازیل میں والدین نے جدید ہوپ ڈانس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس سے بچوں پر کم عمری سے ہی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا بھی حرج ہو رہا ہے ۔ برازیلی عدالت میں بچوں کے حقوق کے وکیل نے کہا ہے کہ اخلاقی طور پر یہ ایک افسوسناک امر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بچے کم عمری میں ہی اپنی معصومیت کھو بیٹھیں گے جو ایسی چیز ہے کہ چلی جائے تو واپس نہیں آتی ۔‘‘آزادمعاشرے ڈانس کو بچوں کی معصومیت کے لیے تباہی جبکہ ہم اسے روشن خیالی سمجھتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں باقاعدہ ڈانس کلاسزجاری ہیں۔سکول ،کالج اوریونیورسٹی کی سالانہ تقریبات ہوں، یا مخصوص تہوار،رقص ان کا بنیادی جزوہے۔وہ تعلیمی ادارے جہاں سے سائنسدان،انجینئر،ڈاکٹر اورحبِ وطن سے سرشارنسل کی تیاری کی توقع تھی ۔اب وہاں سے مستقبل کے بچے ڈانس،گلوکاری،مقابلہ حسن، فیشن شوز، میوزیکل کنسرٹ،فن فیئرز،ملبوسات کی نمائش اورکیٹ واک کے پرفارمربن کرنکلیں گے اورڈاکٹرعبدالقدیرخان جیسے سپوتوں کی بجائے وہ ڈانس کے شہرت یافتہ نمائندوں غلام حسین کتھک،خانوسمراٹ،شیماکرمانی اورناہیدصدیقی ہی کے فن کے علمبرداری کریں گے۔کیا اب تعلیمی اداروں میں ریسرچ،صنعت و ٹیکنالوجی کی بجائے کلاسیکل ،کتھک ،ٹینگو،سالسا ،راک اینڈ رول ،ہپ ہاپ اوربیلے ڈانس کی صورت میں اعضاء کی شاعری سکھائی جائے گی؟بقول کسے ’’پوری دنیا میں ایسا کوئی تعلیمی نظام نہیں جو بچوں کو روزانہ رقص کی تعلیم دے ، جیسے ہم انہیں حساب پڑھاتے ہیں۔‘‘کہا یہ جاتا ہے کہ’’ صاحب !ہم گلوبل ولیج کے عہد میں رہ رہے ہیں اور جغرافیائی حدود اب میڈیا کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔‘‘

نہیں جنابِ والا!ہم فیشن، فرینڈ شپ، ماڈرن ازم، اور انڈر سٹینڈنگ کے نام پر عریانی وفحاشی اوربے لگام آزادی کو قبول نہیں کرسکتے۔پہلے اپنی شناخت پر بھی تو غورکیجیے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان اورپھرپاکستانی ہیں۔ہمیں اپنے تشخص کا تحفظ اورخیال ہر صورت میں رکھناہے۔اگرپڑوسی ملک بھارت میں رقص وسرود عام ہے تو یادرکھنا چاہیے کہ ڈانس، ڈرامہ اور موسیقی ان کے مذہب اور کلچر کا حصہ ہے ۔ بھڑکیلے رقص، گلیمر، رومانس،شوبز، ماڈلنگ، راگ و رنگ اورنغمہ ونے کاہماری تہذیب ،تمدن اورمعاشرہ سے دُورتک بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ پازیب کی جھنکار، جسم کے لوچ اورقلقلِ میناسے گلیمر گرلز اور چاکلیٹ ہیروہی جنم لیتے ہیں،مگرمحمدبن قاسم،ٹیپوسلطان ،سیّد احمدشہید اورشاہ اسمٰعیل شہیدجیسے سپوت صرف لاالہ الاللہ کی لوریوں ہی سے پروان چڑھتے ہیں۔ہمیں علم وہنرسکھانے والی درس گاہیں چاہئیں،نہ کہ رقص گاہیں،کیونکہ علمی درس گاہیں قوموں کے اخلاق وتہذیب کوسنوارتی اورشخصیت وکردارکواُجالتی ہیں۔جبکہ رقص گاہیں اخلاق کوبرباداورشرم وحیاکو نیلام کرکے نسلوں کو اُجاڑتی اورفکرونظرکی قتل گاہوں کوعام کرتی ہیں۔

(کالم نگارمجلس احراراسلام پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ہیں۔)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے