بلوچستان داعش اور طالبان کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے، رحمان ملک

بلوچستان کے دور افتادہ ضلع خضدار میں پہاڑی سلسلے میں ہفتے کی شام ہونے والے خودکش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد پچاس سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ سو سے زائد افراد بلوچستان اور کراچی کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے دھماکے میں براہ راست بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو ملوث قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں اور صرف دو ماہ کے عرصے میں یہ تیسرا بڑا حملہ کیا گیا ہے۔ بُگٹی کے مطابق بھارت افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان میں کارروائیاں کر رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق شاہ نورانی کے مزار پر خودکش حملے کی دو مختلف زاویوں سے تحقیات کی جارہی ہیں۔ ایک بھارتی خفیہ ادارے را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ اور دوسرا داعش اور مقامی کالعدم تنظیموں کا ممکنہ تعاون ہے۔

شاہ بلال نورانی کے مزار پر ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں اب تک اکثریت کراچی کے رہائشیوں کی ہے جو سینکٹروں کی تعداد میں مزار پر حاضری کے لیے گئے تھے۔ وہاں جانے والے کافی لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان کے پیارے انہیں اسپتالوں میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔

وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے دھماکے میں براہ راست بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو ملوث قرار دیا ہے

بم دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ بلال شاہ نورانی کے مزار پر 12 لیوی اہلکار سیکورٹی کے لیے تعینات تھے تاہم نہ تو ان اہلکاروں کے پاس میٹل ڈیٹیکٹرز موجود تھے اور نہ ہی واک تھرو گیٹ۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور ایک کم عمر نوجوان تھا جس نے سات کلو بارود سے بھری جیکٹ پہن رکھی تھی۔ دھماکے کو مزید ہلاکت خیز بنانے کے لیے بڑی تعداد میں بال بیئرنگز کا استعمال بھی کیا گیا۔ حملہ آور نے دھماکے کے لیے سب سے زیادہ رش والے مقام کا انتخاب کیا جہاں دھمال جاری تھا۔

اورنگی ٹاؤن کے ایک رہائشی عمران کو 15 گھنٹے بعد اپنے بیٹے بلال کی لاش کراچی کے سول اسپتال سے ملی۔ بلال مزدوری کرتا تھا جو والد کے منع کرنے کے باجود دیگر دو دوستوں کے ہمراہ ہفتے کی صبح موٹر سائیکل پر شاہ نورانی کے مزار زیارت کے لیے گیا تھا۔ اسی طرح لیاقت آباد کا ایک گھرانہ بھی دھماکے کا شکار ہوا جس کے سات افراد ہولناک دہشتگردی میں لقمہ اجل بن گئے۔

اطلاعات کے مطابق حملہ آور ایک کم عمر نوجوان تھا جس نے سات کلو بارود سے بھری جیکٹ پہن رکھی تھی

دوسری جانب سکیورٹی فورسز اس پہلو پر تحقیقات کررہی ہیں کہ مزار پر ہونے والے اس حملے میں داعش، طالبان اور لشکر جھنگوی جیسے گروپ بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق لشکر جھنگوی اور دیگر تنظیموں کے گٹھ جوڑ کے بعد نہ صرف بلوچستان میں دہشتگردوں کے حملے بڑھ رہے ہیں بلکہ اب دیگر صوبوں میں بھی دہشتگرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور سہولت کاری بلوچستان سے کی جارہی ہے خصوصاﹰ سندھ میں ہونے والے کئی خودکش حملوں کی نہ صرف منصوبہ بندی بلوچستان میں کی گئی بلکہ خودکش حملہ آور بھی یہیں سے بھیجے گئے۔

شاہ بلال نورانی کے مزار پر ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں اب تک اکثریت کراچی کے رہائشیوں کی ہے

سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق بلوچستان کا علاقہ داعش اور طالبان کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے اور افغانستان کے راستے دہشت گرد باآسانی بلوچستان آتے جاتے ہیں۔ رحمان ملک کے مطابق بلوچستان میں ان دہشت گردوں کو مقامی طور پر مکمل مدد فراہم کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں نے پہلے کوئٹہ کو ٹارگٹ کیا اور اب ایسے مقام پر واقع مزار کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں کئی میل تک کوئی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ سابق وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ عراق اور شام میں مزارات کو نشانہ بنانا داعش نے ہی شروع کیا تھا جبکہ پاکستان میں اس سے قبل مزارات پر جتنے بھی حملے ہوئے ان میں لشکر جھنگوی ملوث پائی گئی۔

سکیورٹی اداروں کے مطابق شاہ نورانی مزار پر دھماکا کرنے والا خودکش حملہ آور شکل و صورت سے افغان معلوم ہوتا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ایک تصور گردش کر رہی ہے جس کے ساتھ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نوجوان کی شناخت بتائی ہے تاہم اس دعوٰی کی تاحال کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے