قائد اعظم سے ملاقات

زندگی میں بعض دفعہ ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان کا دل چاہتا ہے کہ وقت کا پہیہ رک جائے فاصلے سمٹ جاہیں اور جن شخصیات کے بارئے ذکر کیا جا رہا ہوان کی موجودگی کا احساس بھی زندہ رہے ایسی ہی ایک ملاقات جس کا پہلے سے رتی بھر بھی احساس نہ تھا کہ اس قدر اہم ہو جائے گی کہ اس ملاقات میں ہونے والی باتوں میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہ رہے گاویسے بھی تاریخ سے لگاو رکھنے والے میرئے جیسے ادنی سے طالب علم کے لیے ہمیشہ وہ لوگ قابل احترام رہے جن کا تعلق پاکستان بنانے والے عظیم رہنماوں کے ساتھ رہا ہواس کالم کا عنوان ،قائد اعظم سے ملاقات، اسی لیے منتخب کیا کیوں کہ مجھے یہی لگا کہ قائد کا ذکر نہیں بلکہ وہ خود سے موجود ہیں اس دوران جب بھی موضوع تبدیل ہوتا میں پھر سے باتوں کو کا رخ قائد کے ذکر کی طرف موڑ دیتااور پھر ذکر بھی قائد کی زندگی کے آخری دنوں کا ہو توخوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کا تاثر سب کے چہروں پر نمایاں ہو جاتا ہے

خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ قائد نے اپنے اخری دنوں میں بھی ان اصولوں پر قائم رہے جن کی وجہ سے وہ اپنوں ہی میں نہیں بلکہ غیروں میں بھی اعلی مقام رکھتے تھے او ر غم اس بات کا کہ قائد کی زندگی کا سفر ختم ہو رہا تھا ،میری یہ ملاقات لاہور میں قائد کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی بیٹی محترمہ یاسمین بخاری کے گھر ہوئی مجھے تو ان کا تعارف ایک شاعرہ ،ادیب اور ارٹ سے وابسطہ خاتون کے طور پر تھا بہت دن ہوئے یاسمین بخاری صاحبہ کی شاعری پر لکھی جانے والی کتاب حرف رقصاں کی تقریب رونمائی میں جانے کا اتفاق ہوارسمی سلام دعا کے بعد میں محفل کے اغاز پر ہی دیگر مصرفیات کی وجہ سے وہاں سے چلا آیااور پھر کافی دنوں بعد ان کے گھر میں ملاقات ہوئی جہان پر قائد اعظم کے اخری دنوں کا ذکر شروع ہوا تو یاسمین بخاری صاحبہ کا تاریخی کردار بھی سامنے آیاجس کا شائد ان کو بھی پوری طرح احساس نہ تھا یاسمین بخاری صاحبہ اپنی یادوں کا ذکر کر رہیں تھیں اور میں اس کھوج میں تھا کہ یہ وہ واحد خاتون ہیں جو اس وقت حیات ہیں اور اللہ ان کو لمبی زندگی دے جو قائد کے ساتھ زیارت سے کراچی تک موجود تھیں اس وقت کے باقی تمام لوگ اللہ کو پیارئے ہو چکے یہ وہ واحد چشم دید ہستی ہیں جنہوں نے قائد کے ساتھ اخری قیمتی لمحات گزارے،ان کی شاعری کے کچھ اشعار قائد کی نظر کرتا ہوں

جہاں میں لوگ وہی باوقار ہوتے ہیں
جو تنگ دستی میں بھی وضع دار ہوتے ہیں
جو یاسمین بٹھاتے ہیں چھاوں میں سب کو
وہ پیڑ دھوپ میں بھی سایہ دار ہوتے ہیں

ان اشعار میں تنگ دستی کے الفاظ معاشی حالات سے تعبیر نہیں کیے گے بلکہ ایک بکھری ہوئی قوم کے لیے کہے گے ہیں اور قائد اعظم ہی ایک ایسے پیڑ تھے جنہوں نے اپنی ذات پر ساری سختیاں جھیل کر قوم کے لیے سایہ بن کر رہے،یاسمین بخاری صاحبہ کے گھر میں ہونے والی نشست میں معروف شاعر،ادیب اور سماجی شخصیت زاہد شمسی صاحب بھی موجود تھے ابھی میں ان کے گھر داخل ہی ہوا تھا کہ نماز مغرب کا وقت ہو گیااسی لمحے میری ملاقات گھر سے باہر انے والے بزرگ لیکن چاک و چوبندشخص سے ہوئی جو نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے میں نے میزبانوں سے سلام دعا کی اور ان کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑاابتدائی تعارف ہوا اور کچھ باتیں نماز کے بعد واپس گھر آتے ہوے کیں اور معلوم پڑا کہ یہصاحب سابق فوجی افسر اور یاسمین بخاری صاحبہ کے شوہر ہیں میرے آنے تک میزبان محفل جمائے بیٹھے تھے میں بھی ان کے ساتھ شریک گفتگو ہو گیاایک دوسرے کے ساتھ تفصیلی تعارف کے بعد جب بات آگے بڑھی اور یاسمین بخاری صاحبہ نے قائد کے ساتھ گزرے ہوے لمحات کا ذکر شروع کیاتو مجھے ایسا لگا کہ میری یہ ملاقات قائد اعظم کے ساتھ ہو رہی ہے

وہ قائد کا ذکر کرتی گئیں اور میں قائد کے کہے ہوے الفاظ کی گونج اپنے کانوں میں محسوس کرتا گیادر حقیقت میری یہ ملاقات زاہد شمسی صاحب یا یاسمین بخاری صاحبہ سے نہ تھی بلکہ قائد سے تھی اور میں میزبانوں کا شکر گزار ہوں کہانہوں نے قائد سے میری ملاقات کروا دی خیر باتیں جاری تھیں یاسمین صاحبہ بتا رہیں تھیں کہ قائد اعظم زیارت میں تھے ان کی طبعیت ناساز تھی ایک روز جب میرے والد ان سے ملنے گے تو قائد اعظم نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی فیملی کے ہمراہ زیارت میں میرے پاس آ جاہیں تاکہ اپ میرا بہتر طریقے سے علاج کر سکیں اور پھر میرے والد فیملی کے ہمراہ زیارت منتقل ہو گے ہمارے خاندان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے قائد نے خود اپنی خواہش کا اظہار کیا میرے والد ڈاکٹر ریاض علی شاہ اپنے وقت کے واحد ٹی بی کے مرض کے ڈاکٹر تھے اور اس خیال سے کہ اگر میں نے خود قائداعظم کا علاج کیا تو سب کو معلوم پڑ جائے گا کہ قائد کو یہ مرض لاحق ہے اور اس طرح قیام پاکستان کی تحریک میں دشمن مزید رکاوٹیں ڈالیں گے

میرے والد نے قائد کی اجازت سے ڈاکٹر کرنل الہی بخش کو قائد کے علاج کی ذمہ داری سونپی ڈاکٹر کرنل الہی بخش نے بھی قائد کے اس مرض کو آخری قوت تک راز رکھا زیارت میں قیام کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کی قربت بھی رہی وہ بھی اپنے بھائی کی طرح اصول پسند اور باوقار خاتون تھیں ان کے ساتھ کی وجہ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملابے شک اس وقت ہم بچے تھے لیکن اپنی عمر کے مطابق پھر بھی کسی نہ کسی کام میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیتے وہ بھی ہمارے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آتیں اور پھر کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ہم قائد کے کمرے تک چلے جاتے اور والد کے ساتھ ان کی گفتگو کو غور سے سنتے قائد کمزوری کے باعث بہت آہستہ گفتگو کرتے لیکن اس بات پر ہمیں آج بھی فخر ہے کہ قائد اعظم شدید بیمار ہونے کے باوجود ملک کے لیے فکر مند رہتے اور والد سے معلومات حاصل کرتے دوسری اہم بات یہ کہ قائد آخری وقت تک اصولوں پر کاربند رہے جس کا درس وہ اپنی قوم کو زندگی بھر دیتے رہے

قائد اعظم کی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر دن رات ان کی دیکھ بھال کے لیے موجود رہتے اور بھر ایک دن بتایا گیا کہ قائد کی صحت تیزی سے گر رہی ہے اور ان کو فوری طور پر کراچی شفٹ کرنا پڑے گا اور پھر یاسمین بخاری صاحبہ قائد کا ذکر کرتے ہوے آبدیدہ ہوہیں ماحول غمگین ہو گیا یہاں پر موجود ہر شخص کی انکھیں نم ہو گیءں انہی پرنم انکھوں اور لرزتی ہوئی اواز کے ساتھ قائد کا ذکر جاری تھا یاسمین صاحبہ نے بتایا کہ بعض لوگوں کی طرف سے کہا جاتا ہے قائد اعظم زیارت سے روانہ ہونے کے بعد ایمبولینس میں دنیا سے کوچ کر چکے تھے لیکن ایسا نہیں تھا جب قائد کی ایمبولینس راستے میں خراب ہوئی تو ہم محترمہ کی گاڑی میں ساتھ موجود تھے میں نے خود گاڑی سے نکل کر ایمبولینس تک گئی اور دیکھا قائد ہوش میں تھے اور محترمہ سے بات کر رہے تھے اور جب ان کو دوسری ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تو قائد مکمل ہمت میں تھے قائد پر کمزوری ضرور غالب تھی اور سب لوگ پریشان بھی تھے ڈاکٹروں کی طرف سے بھی مایوسی کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن قائد نے مایوسی طاری نہیں ہونے دی

محترمہ فاطمہ جناح نے بھی امید کا دامن نہیں چھوڑااور قائد کی طبیعت میں بہتری کے لیے ٓآرزومند تھیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا قائداعظم ہمیں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے والد نے ہمیں اطلاع دی سب لوگ دکھ میں مبتلا تھے میرے سامنے آج بھی وہ سارے منظریادوں نہیں بلکہ حقیقت کی طرح گھوم رہے ہیںیاسمین بخاری صاحبہ قائد کے آخری سفر کا ذکر کر رہیں تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ قائد کی قربت اور محترمہ فاطمہ جناح کی تربیت کا اثر ہے کہ ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی اولاد نے قائد اعظم کے اتنا قریب رہنے کے باوجود کبھی شہرت کے لیے قائد کا نام استعمال نہیں کیا ورنہ میں ذاتی طور پر کئی ایسے نامور لوگوں کو جانتا ہوں جو قائد کے ساتھی ہونے کا ذکر کر کے فوائد حاصل کرتے ہیں اس دوران چائے کا پر تکلف دور شروع ہوا اور پھر قائد اعظم کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے کاذکر کرتے ہوئے یاسمین بخاری صاحبہ نے بتا یا کہ محترمہ جب بھی لاہور آتیں تو ان کا قیام ہمارے گھر ہوتا ہمارے خاندان نے محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن میں بھی فوجی امریت کے خلاف ان کا بھر پور طریقے سے ساتھ دیا ہم نے اصولوں کا ساتھ دیا وہ اصول جو ہم نے قائد کی قربت سے حاصل کیے تھے ہم آج بھی ملکی حالات سے مایوس نہیں بلکہ پر امید ہیں کہ مشکلات سے نکلنے کے لیے کچھ اس طرح کا عمل کرنا پڑے گا

راستہ پتھروں سے نکلے گا
ان کو ٹھوکر ذرا لگا تو سہی

شریک محفل زاہد شمسی صاحب نے بتایا کہ یاسمین بخاری صاحبہ کے بیٹے ڈاکٹر سید احمد جمال جو امریکہ میں مقیم ہیں اوروہاں پر yale university سے دس بار ایواڈ حاصل کرنے کے بعد اب یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے نام ڈاکٹر سید احمد جمال ایواڈ کا اجرا کیا ہے اور یہ وہ ہی تربیت ہے جو قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح سے منتقل ہو کر یاسمین بخاری صاحبہ کے ذریعے ان کی اولاد تک منتقل ہو چکی ہے یاسمین بخاری صاحبہ وطن کی محبت میں اپنیے جگر گوشوں سے دور ہیں اور وہ پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں زاہد شمسی صاحب کی گفتگو جاری تھی اور میں افسردہ تھا کہ قائد سے میری ملاقات جلد ختم ہو گئی اسی گھر میں پاکستان کو بنتا دیکھنے والی ایک اور شخصیت یاسمین بخاری صاحبہ کے شوہر بریگیڈیر (ر) سجاد صاحب بھی موجود تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت دہلی سے ٹرین کے ذریعے لاہور آنے تک کے سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات بتاے ان سے ہونے والی مختصر ملاقات پر کسی اگلی نشست میں بات ہو گی کیونکہ ابھی میں قائد سے ملاقات کے سحر میں ہوں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے