جہاد، دہشت گردی اور جاوید غامدی

[pullquote]نیو یارک میں دہشت گردی اور امریکا افغانستان جنگ کےپس منظر میں جاوید احمد غامدی کا افضال ریحان کے ساتھ گفتگو کا اہم حصہ ہم اپنے قارئین کے لیے ضروری تدوین کے بعد یہاں شائع کر رہے ہیں ۔ ادارہ[/pullquote]

سوال : آپ کے نزدیک دہشت گردی کی کیا تعریف ہے؟

جواب : غیر مقاتلین کی جان ، مال یا آبرو کے خلاف غیر علانیہ تعدی دہشت گردی ہے ۔ غیر مقاتلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حالت جنگ میں نہ ہوں ۔ ان کے خلاف اگر کوئی اقدام انھیں اپنی حفاظت کے لیے متنبہ کیے بغیر کیا جائے تو وہ دہشت گردی قرار پائے گا ۔ چنانچہ ہیروشیما ، ناگاساکی پر ایٹمی تاخت ، نیویارک اور واشنگٹن میں حالیہ تباہی اور مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے باہر بموں سے حملہ دہشت گردی ہی کے اقدام ہیں ۔

عام شہری تو بہرحال غیر مقاتلین ہیں ، لیکن اگر مسلح افواج بھی برسرِ جنگ نہیں ہیں تو ان پر بھی غیر علانیہ حملہ دہشت گردی قرار پائے گا ۔ گویا دہشت گردی وہ کارروائی ہے جس میں یہ دو شرطیں ہر حال میں پائی جاتی ہوں

س١ ۔ غیر مقاتلین کے خلاف اقدام ۔

٢ ۔ غیر علانیہ اقدام ۔

سوال : آپ کے خیال میں جہاد کی کیا تعریف ہے؟

جواب : شریعت کی رو سے ظلم و عدوان کے خلاف کسی منظم حکومت کے تحت علانیہ اقدامِ جنگ جہاد ہے ۔ گویا وہی اقدام جہاد قرار پائےگا جس میں یہ تین شرطیں پوری کی گئی ہوں

س١ ۔ اقدام ظلم و عدوان کے خلاف ہو ۔

٢ ۔ منظم حکومت کے تحت ہو ۔

٣ ۔ علانیہ ہو ۔

ان شرائط کو پورا کیے بغیر کسی کارروائی کو جہاد سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔

سوال : کوئی فرد یا گروہ اپنی انفرادی حیثیت میں اگر جہاد کا اعلان کرتا ہے اور سلسلہء جنگ شروع کر دیتا ہے تو کیا اسے جہاد قرار دیا جائے گا ؟

جواب : یہ اقدام جہاد نہیں قرار پائےگا ، کیونکہ جہاد تو ہوتا ہی منظم حکومت کے تحت ہے ۔ جس طرح کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قرآن میں چور کی سزا کا حکم پڑھ کر چوروں کے ہاتھ کاٹنے شروع کر دے ، اسی طرح اقتدار کے بغیر کسی فرد کو بندوق اٹھانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے ۔

سوال : اس سلسلے میں ایک حدیث بھی بہت بیان کی جاتی ہے کہ جب تم کوئی برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو ۔ اس کی بنیاد پر عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ طاقت رکھتے ہوں تو انھیں برائی کے خلاف اقدام کرنا چاہیے ؟

جواب : اس حدیث کا تعلق دائرہء اختیار سے ہے ۔ ہر شخص کا ایک دائرہء اختیار ہوتا ہے ۔ شوہر کا دائرہء اختیار اس کا خاندان ہے ، باپ کا دائرہء اختیار اس کی اولاد ہے ، حکمران کا دائرہء اختیاراس کی مملکت ہے ۔ اس دائرہء اختیار میں صاحبِ اختیار اگرضرورت محسوس کرے تو کسی برائی کو قوت سے روک سکتا ہے ۔ یعنی یہ حدیث ہر آدمی سے اس کے دائرہء اختیار کے حوالے ہی سے متعلق ہوتی ہے۔ میں نے اپنی کتاب میزان میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے ۔ آپ اسے وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔

سوا ل : خودکش حملے جنھیں آج فدائی حملوں سے تعبیر کیا جاتا ہے ،ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب : اگر کارروائی کی نوعیت دہشت گردی کی ہے یعنی وہ غیر مقاتلین کے خلاف غیر علانیہ طور پر کی گئی ہے تو خواہ وہ خودکش حملے کے طریقے پر کی گئی ہے یا اس سے گریز کرتے ہوئے ، بہرحال ناجائز ہے ۔ لیکن اگر ایک منظم فوج علانیہ جنگ کر رہی ہے اور اس کا کوئی سپاہی کسی موقع پر اپنے آپ کو خودکش حملے کے لیے پیش کر دیتا ہے تو اسے ناجائز نہیں کہا جا سکتا ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ جہاد سے مراد خود ساختہ جہاد نہیں ، بلکہ ایک منظم حکومت کے تحت مقاتلین کے خلاف کیا جانے والا علانیہ جہاد ہے ۔

سوال : کشمیر میں جو مجاہدین خودکش حملے کر رہے ہیں ، ان کی کیا نوعیت ہے ؟

جواب : وہ چونکہ جہاد کی بنیادی شرائط پوری نہیں کر رہے ، اس لیے ان کے حملوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ وہ یہ جنگ نہ کسی منظم حکومت کے تحت لڑ رہے ہیں ، نہ ان کی جنگ علانیہ ہے اور نہ وہ مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان فرق کر رہے ہیں ۔

اس وقت بھارت کی فوج ہمارے لیے مقاتلین کی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ ہم ان سے برسر جنگ نہیں ہیں ۔

سوال : جہاد کے حوالے سے مولانا طنطاوی کے فتوے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

جواب : بھائی ، میں نے دین کی رو سے دہشت گردی اور جہاد کی تعریف آپ کے سامنے بیان کر دی ہے ، آپ اس کی روشنی میں خود فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ دوسرے اہل علم کی آرا پر میں تبصرہ کرنا پسند نہیں کرتا ۔ وہ جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں ، اسے بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

سوال : کیا امریکا کا افغانستان پر حملہ بھی دہشت گردی نہیں ؟

جواب : حملے کی شناعت دوسرے وجوہ سے اپنی جگہ مسلم ہے ، لیکن اگر امریکا وہاں صرف مقاتلین کے خلاف کارروائی کر رہا ہو اور یہ کارروائی علانیہ ہو تو اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ ، اگر وہ یک بیک کابل اور قندھار کے شہری علاقوں پر بم باری شروع کر دیتا ہے تو یہ اقدام ہر لحاظ سے دہشت گردی ہو گا ۔ یہ اسی طرح کا مجرمانہ اقدام ہو گا جس طرح ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیا گیا ۔

سوال : لیکن اگر بم باری کا اصل ہدف تو فوجی اڈے اور مقاتلین ہیں ، مگر قریبی گاؤں اور بستیاں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں معصوم جانیں تباہ ہو جاتی ہیں تو کیا اس صورت میں بھی اسے دہشت گردی نہیں کہا جائے گا ؟

جواب : یہ معاملہ دنیا کی ہر جنگ میں ہوتا ہے ۔ یعنی ایسی کسی جنگ کی ضمانت نہیں دی جا سکتی جس میں عام شہریوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق نہ ہو ۔ اصل بات یہ ہے کہ انھیں دانستہ ہدف نہ بنایا جائے ۔ جنگ علانیہ ہو تاکہ وہ اپنی حفاظت کے لیے خطرے کی جگہوں سے نکلنا چاہیں ، تو نکل جائیں ۔

سوال : آپ کی بات تو بہت واضح ہے ، لیکن ہمارے علما اس سے بہت مختلف جگہ پر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں ؟

جواب : ہمارے علما اپنے علم و فہم کے مطابق کہہ رہے ہیں اور میں اپنے علم و فہم کے مطابق بیان کر رہا ہوں ۔ جس بات پر آپ کا اطمینان ہو ، آپ اسے اختیار کر سکتے ہیں۔

سوال : غلامی کے خلاف آزادی کی جنگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

جواب : آزادی اور غلامی کے الفاظ جو آج کل استعمال ہو رہے ہیں ۔ یہ جمہوریت کے بعد بالکل بے معنی ہو چکے ہیں۔ جو لوگ یہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں ، وہ اصل میں پچھلی صدی میں رہ رہے ہیں۔ دنیا میں آزادی اور غلامی کے تصورات ہی بالکلیہ بدل گئے ہیں۔ اب حکومت اکثریت کی ہوتی ہے ۔ ہندوستان میں اگر ہندووں کی اکثریت ہے تو ان کی حکومت ہو گی اور اگر ہم اپنی اکثریت قائم کر لیتے ہیں تو ہماری حکومت ہو گی ۔ تاہم کسی جگہ اگر اکثریت پر کوئی اقلیت اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہے تو اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنی چاہیے ۔ جنگ و جدال جیسے اقدامات کبھی پابندِ حدود نہیں رہتے ۔ ان کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اس وقت پوری دنیا کے لیے ایک مصیبت بن کر نکل آیا ہے ۔ ان سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے ۔

سوال : لیکن کشمیر میں تو مسلمانوں کی اکثریت ہے ؟

جواب : کشمیر کی صورت حال مختلف ہے ۔ کشمیر کے بارے میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازع یہ ہے کہ یہ خطہ ہندوستان کا حصہ ہے یا پاکستان کا ۔ وہاں جھگڑا اکثریت اور اقلیت کا نہیں ہے ۔ وہاں ایک سیاسی مسئلہ ہے کہ ہندوستان یہ کہتا ہے کہ کشمیر کا الحاق ہمارے ساتھ ہو چکا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ نہیں ہوا ۔ یہ اصل میں 1947ء کا ایجنڈا ہے جس پر دو ملکوں کے مابین سیاسی اختلاف ہے ۔ اسے سیاسی طریقے ہی سے طے ہونا چاہیے ۔

سوال : یہ جہادی کلچر جو ہمارے ہاں ترقی پا رہا ہے ، اس کی اسلام میں کس حد تک گنجایش ہے ؟

جواب : جس اسلام کو میں جانتا ہوں ، اس میں اس کی کوئی گنجایش نہیں ہے ۔

سوال : آپ تو وہی بات کر رہے ہیں جو بش اور ٹونی بلئیر کر رہے ہیں ؟

جواب : میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کر رہا ہوں اور مجھے بہت خوشی ہے کہ آج ان کی بات دوسرے لوگوں نے بھی کرنی شروع کر دی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ان دونوں سے بہت پہلے ہوئی تھی ۔ آپ نے یہ بات 14صدی پہلے کی تھی ، بلکہ آپ سے پہلے کے تمام انبیا علیہم السلام کا اسوہ بھی یہی ہے کہ جب تک باقاعدہ اور منظم حکومت قائم نہ ہو ، وہ نہ سزا نافذ کرتے ہیں ، نہ قتال کرتے ہیں ۔

سوال : اب اگر حکومت ہی نہ ملے تو پھر کیا کیا جائے ۔ جہادی گروہ کہتے ہیں کہ مسئلے کو بھی تو زندہ رکھنا ہے ؟

جواب : بھائی ، میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ پچھلی صدی میں یہ سیاسی انقلاب برپا ہو چکا ہے کہ اب قوموں پر قبضے نہیں کیے جاتے ۔ یہ تو اس زمانے کا مسئلہ تھا جب ایک قوم اٹھتی تھی اور اپنی قوت کے بل بوتے پر دوسری قوم کو غلام بنا لیتی تھی ۔ اب تو اکثریت کی حکومت ہوتی ہے ۔ اس معاملے میں تشویش ان کو ہونی چاہیے جو محض ایک قوم ہیں ، ہم تو اس کے ساتھ دعوت بھی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہم کسی جگہ اقلیت میں ہوں اور کل اسی کو اپنی

دعوت سے اکثریت میں بدل دیں ۔

سوال : یہ دعوت والی بات اب پرانی لگتی ہے ۔ اس وقت ہمارے علماے دین تو کہیں دعوت وغیرہ کی بات نہیں کرتے ؟

جواب : دین کی حقیقتیں ابدی ہیں ۔ اگر ساری دنیا بھی انھیں فراموش کر دے تب بھی قائم رہیں گی ۔

سوال : مسئلہء فلسطین کا آپ کیا حل سمجھتے ہیں ۔ وہاں پر اسرائیل مسلمانوں پر جو ظلم کر رہا ہے ، اس پر آپ کاکیا تبصرہ ہے ؟

جواب : میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں ؟

سوال: نہیں کرتے ؟

جواب : تو پھر اس سے کیوں مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو تسلیم کرے ۔

اسرائیل ایک واقعہ کے طور پر اس وقت دنیا میں موجود ہے ۔ قطعِ نظر اس کے کہ اس کا وجود جائز ہے یا ناجائز ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس واقعے کو دنیا میں کالعدم کر سکیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں یا جنگ ؟ اگر امن چاہتے ہیں تو اس واقعہ کو بالفعل تسلیم کرنا پڑے گا ۔ بنگلہ دیش کو نہیں بننا چاہیے تھا ، مگر وہ بن گیا ۔ اب ہم اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کریں یا اس کے خلاف جنگ کریں ؟

انصاف حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو ممکن حل پر اکتفا کر لینی چاہیے ۔ دانش مندی کا تقاضا یہی ہے ۔ ہر جگہ ممکن حل پر اکتفا کر کے امن کی ضمانت حاصل کیجیے اور اپنی غربت اور جہالت کے خلاف جنگ کی ابتدا کر دیجیے ۔ امتِ مسلمہ کے لیے اس وقت کی صورت حال میں صحیح لائحہء عمل یہ ہے ۔

سوال : بیت المقدس ہمارا قبلہء اول ہے ، وہ مسلمانوں کے پاس ہونا چاہیے ؟

جواب : بیت المقدس ان کا ہم سے پہلے کا قبلہ ہے ۔

سوال : تو پھر اس کا حل کیا ہے ؟

جواب : مسئلہ یہ ہے کہ بیت المقدس کے ساتھ ہماری بھی پوری دلچسپی اور جذباتی وابستگی ہے، یہودیوں کی بھی ہے اور عیسائیوں کی بھی ۔ تینوں مذاہب کے لیے وہ ایک مقدس جگہ ہے۔ اس لیے اس کے منصفانہ حل دو ہی ہو سکتے ہیں :

ایک یہ کہ وہ کسی بین الاقوامی ادارے کے تحت ہو ۔

دوسرے یہ کہ تینوں مذاہب کے نمائندے اس کا نظم و نسق چلائیں ۔

اس پر مسلمانوں کا بھی حق ہے ، عیسائیوں کا بھی حق ہے اور یہودیوں کا بھی حق ہے۔

سوال : ایک بات جو بار بار کی جا رہی ہے کہ قرآن میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے ۔ جب یہ قرآن میں آ گیا ہے تو ہم اس کی اجازت دینے والے کون ہیں ؟

جواب : یہ بات جزیرہ نماے عرب کے ان یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہی گئی ہے جن پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اتمامِ حجت کیا تھا ۔ یہ بات قومی حیثیت میں یہود و نصاریٰ کے بارے میں نہیں کہی گئی ۔ اگر اس کو ان کی قومی حیثیت سے متعلق کیا جائے تو پھر اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت کے کیا معنی ہیں ؟ یہ نکاح کیا دوستی اور محبت کے جذبات کے بغیر ہو جائے گا؟ درحقیقت عرب کے یہود و نصاریٰ وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی پر کمر بستہ ہو گئے تھے اور انھوں نے وہاں پر مسلمانوں کو مٹا دینے کی سازشیں کی تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے عرصے تک ان کے ساتھ معاہدات رکھے، دوستانہ روابط قائم کیے ، لیکن وہ دشمنی سے باز نہیں آئے ۔ تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ ان کے ساتھ دوستی کا تعلق نہیں رکھا جا سکتا ۔

سوال : آپ سے گفتگو کے بعد اسلام کا خوف ناک تصور باقی نہیں رہتا ؟

جواب : جو دین امن و امان اور سلامتی کا دین ہے ، وہ خوف ناک کیسے ہو سکتا ہے ۔

سوال : جو دین ہم سنتے ہیں ، وہ تو یہ ہے کہ مار دو ، زندہ نہ چھوڑو ، بچ کر نہ جائے۔

جواب : دین کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننا چاہیے ۔ انھوں نے جو دین بیان کیا ہے ، وہ تو امن و سلامتی اور رحمت و محبت سے عبارت ہے ۔

سوال : آج کل میثاقِ مدینہ کے حوالے سے بھی گفتگو سامنے آ رہی ہے ۔ آپ فرمائیے کہ میثاقِ مدینہ کیا ہے ؟ اور موجودہ تناظر میں اس کی کیا اہمیت ہے ؟

جواب : میثاقِ مدینہ کی بڑی غیر معمولی اہمیت ہے ۔ وہ یہ بتاتا ہے کہ کسی علاقے میں اگر مسلمانوں کی حکومت ہو تو اقلیتوں کے ساتھ وہ کن اصولوں پر معاہدات کر سکتے ہیں۔

سوال : گزشتہ رات مولانا سید سلیمان ندوی کے فرزند ارجمند سید سلمان ندوی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق مسلمانوں کے برابر ہوتے ہیں ۔ میرے ذہن میں فوراً آپ کی یہ بات آئی کہ غیر مسلم تو معاہدین بھی ہو سکتے ہیں ؟

جواب : میں اس پر بڑی تفصیل سے لکھ چکا ہوں ۔ اسلامی حکومت میں اب جو بھی غیر مسلم ہوں گے، وہ سب معاہدین ہوں گے اور ان کے ساتھ آپ جن شرائط پر چاہیں ، معاہدہ کر سکتے ہیں ۔ تمام مسلمان ریاستیں اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر چکی ہیں اور اس کی رو سے اقلیتوں کے حقوق مان چکی ہیں ۔

سوال : آپ اس بات کو نہ چھیڑیں ، وہاں تو یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ہر شخص کو مذہب بدلنے کی آزادی ہے اور ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے مذہب اپنائے ؟

جواب : یہ آزادی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے ۔

سوال : لیکن ہم تو یہ بات نہیں مانتے ۔ ہم نے جو دین سنا ہے ، اس کے مطابق تو مذہب بدلنے والا مرتد اور واجب القتل ہوتا ہے ؟

جواب : یہ مسئلہ بھی ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے ۔ اس موضوع پر میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں ۔ یہ ایک علمی بحث ہے ۔ اسے آپ میری کتاب ”برہان” میں دیکھ سکتے ہیں ۔

سوال : بس ایک دو جملوں میں اس کا خلاصہ بتا دیں ؟

جواب : اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے قانونِ اتمام حجت سے ہے ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بحیثیتِ رسول ایک خصوصی حکم تھا اور اس کا تعلق ان لوگوں سے تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست مخاطب تھے ۔ موجودہ زمانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

سوال : آپ کے خیال میں دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد اسامہ بن لادن اور افغانستان کو کیا کرنا چاہیے تھا ؟

جواب : دہشت گردی کے حادثے کے بعد امریکا ، بلکہ پوری دنیا نے یہ الزام لگا دیا تھا کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد ی میں ملوث ہیں اور افغانستان ان سے تعاون کر رہا ہے ۔ اس الزام کی کچھ جزوی تصدیق پاکستان اور سعودی عرب نے بھی کر دی تھی ۔ جب پوری دنیا نے ان کی طرف انگلی اٹھا دی تھی تو پھر انھیں چاہیے تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ٹرائل کے لیے پیش کر دیتے ۔ وہ یہ کہتے کہ ہم دنیا کی عالمی عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ افغانستان کی حکومت بھی یہ کہتی کہ ہم نے افغانستان کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ دنیا کے سب لوگ آئیں اور افغانستان کا چپا چپا چھان ماریں ۔ وہ دیکھ لیں کہ ہمارے ہاں کوئی دہشت گردی کا کیمپ نہیں ہے ۔ اس صورت میں امریکا کو اپنا مقدمہ ثابت کرنا پڑتا اور پھر آپ دیکھتے کہ امریکا اخلاقی لحاظ سے کس طرح پس پا ہو جاتا ۔ اور اگر اس کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کو غلط سزا ہوتی تو وہ خود اسلام کی عظمت کے لیے ایک بڑی قربانی بن جاتے اور ان کی شہادت مظلومانہ شہادت ہوتی ، بالکل اسی طرح جس طرح سیدنا عثمان نے اپنی جان دے کر امت کو خون ریزی سے بچانے کی کوشش کی تھی ۔ اب تو جو کچھ وہ کر رہے ہیں ، اس میں ان کی استقامت پر رشک اوران کی دانش پر ترس آتا ہے ۔

سوال : آپ کی یہ باتیں بہت صحیح لگتی ہیں ، مگر کیا کریں کہ ہمارے معاشرے میں انھیں بیان کرنا مشکل ہو گیا ہے ؟

جواب : صحیح بات بیان کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے ۔

سوال : لیکن کسی اسلامی سوسائٹی میں تو اپنی بات بیان کرنے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ؟

جواب :ہماری سوسائٹی کی تربیت ، بدقسمتی سے اسلامی اخلاقیات کی بنیاد پر نہیں ہوئی ، اس میں تو آپ لوگوں کو مذہبی اختلافات کی بنا پر قتل کر رہے ہیں ۔

ـــــــــــــــ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے