موت

زندگی کیا ہے، موت کا انتظار! کچھ انسانوں کے لئے خدا یہ انتظار کم کر دیتا ہے، کچھ کے لئے ذرا سا طویل اور کچھ کے لئے بالکل مختصر۔ اُس کی منشا، اُس کی رضا۔ کسی کی کیا مجال کہ دم مار سکے۔

امریکی لکھاری ریمنڈ کارور کا افسانہ ’’زندگی‘‘ یاد آگیا۔ ایک ماں اپنے بچے کی سالگرہ کے لئے کیک کا آرڈر دیتی ہے، مگر اگلے ہی روز اسکول سے واپسی پر بچے کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اور وہ کومے میں چلا جاتا ہے، ماں باپ ہلکان ہو جاتے ہیں، ڈاکٹر انہیں تسلی دیتے ہیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں اُن کا بچہ ایک قسم کی گہری نیند میں ہے جو کسی وقت بھی کھل سکتی ہے۔ اس دوران جب وہ باری باری گھر میں آرام کرنے جاتے ہیں تو بیکری سے کیک والا انہیں فون کرتا ہے مگر انہیں لگتا ہے جیسے کوئی انہیں پریشان کر رہا ہے، وہ پٹخ کر فون بند کردیتے ہیں۔ ادھر اسپتال میں ڈاکٹر انہیں یہ افسوسناک اطلاع دیتا ہے کہ اُن کے بچے کی موت واقع ہو گئی ہے ، والدین کے لئے یہ خبر کسی قیامت سے کم ثابت نہیں ہوتی ۔ وہ رو دھو کر گھر واپس آتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ اُن کا بچہ اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔اس دوران بیکری والے کا دوبارہ فون آتا ہے ، پھر انہیں یاد آتا ہے کہ یہ وہی بیکری والا ہے جسے انہوں نے کیک کا آرڈر دیا تھا، وہ غصے سے ملغوب ہو کر بیکری پہنچتے ہیں تاکہ اس کی خبر لے سکیں۔ باہر بلا کی سردی ہوتی ہے جبکہ بیکری میں داخل ہوتے ہی انہیں خوشگوار گرماہٹ کا احساس ہوتا ہے، بیکری والا اُ ن سے ہاتھ جوڑ کر اپنے رویے کی معافی مانگتا ہے اور انہیں گرما گرم کافی اور رول پیش کرتا ہے۔ تازہ رولز اور گرم کافی کا انہیں لطف آ جاتا ہے، اس دوران بیکر انہیں اپنی تنہائی اور ادھیڑ عمری کے قصے سناتا ہے۔ ’’وہ بولتا رہا اور اینی اور اُس کا خاوند خاموشی سے کافی پیتے رہے اور مختلف چیزیں چکھتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اُن کا وہاں سے اٹھنے کا جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ ‘‘ زندگی اور موت کی اس سے بہتر اور سفاک تشریح شاید ممکن نہیں ۔ غم چاہے کتنا ہی بڑا ہو، جوان اولاد کا ہو یا بوڑھے والدین کا، زندگی میں واپس آنا ہی پڑتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے صدیق الفاروق کے جواں سال بیٹے کی ناگہانی موت ہوئی ، پہلے جب یہ خبر سنی تو کانوں کو یقین نہیں آیا، بھلا بتیس برس کا کڑیل جوان کیسے مر سکتا ہے، پھر پتہ چلا کہ نوجوان تن سازی کا شوقین تھا، باڈی بلڈنگ کے لئے کچھ ادویات بھی استعمال کرتا تھا، کثرت استعمال جان لیوا ثابت ہوا۔ زندگی ایسی ارزاں بھی نہیں ہوتی۔ جوان بیٹے کی موت کا غم بھی بھلا کوئی سہہ سکتا ہے، میں شہر سے باہر تھا جب مجھے یہ خبر ملی ،اسی شش و پنج میں رہا کہ صدیق الفارق کے پاس جاؤں گا اور اُن سے تعزیت کروں گا، لفظ ’’تعزیت‘‘ یہاں کس قدر چھوٹا معلوم ہورہا ہے۔ ایسی موت کی کیا تعزیت ہو سکتی تھی، یہی سوچتا رہ گیا۔ ایک باپ جس کا جوان بیٹا موت کو گلے لگا بیٹھا ہو، اسے کیا پُرسا دیا جا سکتا ہے۔

پھر خبر ملی کہ خوبصورت شاعر قمر ریاض کا گیارہ ماہ کا بیٹا خدا کو پیارا ہو گیا ہے۔ ننھے فرشتے کی اِس ماہ پہلی سالگرہ تھی، ماں باپ اُس کے لئے خریداری کر رہے تھے، ماں کو لگا کہ بچے کا ماتھا گرم ہو رہا ہے، ڈاکٹر کو دکھایا جس نے نمونیے کا خدشہ ظاہر کیا اور انجکشن لگا دیا، بچے کی حالت نہ سنبھلی تو اسے اسپتال لے گئے، ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اسے چلڈرن اسپتال لاہور لے جائیں وہاں بہتر سہولتیں ہیں، باپ نے بھاگم بھاگ ایمبولنس کا بندوبست کیا اور رات کے پچھلے پہر لاہور پہنچا، دو دن تک بچہ اسپتال رہا اور پھر خالق نے اپنی تخلیق واپس لے لی۔ ایسا معصوم پھول جیسے کسی مصور نے رنگوں میں جان بھر دی ہو، آخر خدا کا ایک نام ’’المصور‘‘ بھی تو ہے! لیکن وہ ماں باپ اب کیا کریں، اُن کے ساتھ کیا ’’افسوس‘‘ کیا جائے، کیا دلاسہ دیا جائے،اُن کی تو زندگی ہی اپنے بچے کی ہنسی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔

نومبر کا مہینہ شفیق مرزا کو بھی مرحوم کر گیا۔ میرے فون میں یہ ایس ایم ایس محفوظ ہے ’’شفیق مرزا صاحب وفات پا گئے ہیں، جنازہ کل ہوگا!‘‘ وفات پا گئے ……جنازہ ……انسان کی حیثیت ان دو الفاظ سے زیادہ اور کیا ہے۔ مرزا صاحب کی موت عجیب سا دکھ دے گئی حالانکہ اُن سے میری بالمشافہ ملاقاتیں بہت کم تھیں، فو ن پر البتہ اکثر گفتگو ہوتی تھی۔ ’’کالم نہیں آیا اب تک!‘‘ مرزا صاحب اپنے مخصوص لہجے میں کہتے جب کبھی کالم میں تاخیر ہوتی۔ اور میرا رٹا رٹایا جواب ہوتا کہ میرا کالم پہلے سے ٹائپ شدہ ہوتا ہے سو تاخیر بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے، یہ سُن کر مرزا صاحب قہقہہ لگاتے اور ایک آدھ چٹکلا چھوڑ کر فون بند کر دیتے۔ شفیق مرزا اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کبھی علمیت کا رعب جھاڑنے کی کوشش نہیں کی تھی، حالانکہ عربی، فارسی اور انگریزی پر دسترس رکھنے کے علاوہ دین کا ایسا فہم رکھتے تھے کہ اچھے خاصے عالم دین اُن سے رہنمائی لیتے تھے، کئی کتابوں کے تراجم کئے مگر شخصیت میں ایسی انکساری جیسی کسی صاحب علم میں ہونی چاہئے۔ جس روز موت اُن کے تعاقب میں تھی اُس دن وہ سڑک پر پیدل جا رہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل نے ٹکر ماردی، سر پر چوٹ آئی، کئی دن اسپتال میں رہے مگر ہوش نہیں آیا، بالآخر خدا نے اپنے پاس بلا لیا۔

انہی دنوں میری ایک کولیگ کی والدہ وفات پاگئیں، وہ ڈائیلسز پر تھیں، بیٹی نے مرتے دم تک ماں کی خدمت کی، دفتر کا کام ایسا تھا کہ فرصت ہی نہیں ملتی تھی، اس کے باوجود وہ ماں کو ڈائیلسز کروانے خود لے جاتی، اُ ن کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتی، مگر اولاد ہو یا والدین کوئی ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا۔ ماں کی موت کے چند روز بعد اُس کے والد بھی انتقال کرگئے، بیمار تھے اور آکسیجن کے ذریعے سانس لیتے تھے، خدا نے اُن کی مشکل تو آسان کردی مگر اولاد کو یہ دونا غم چند دن میں سہنا پڑگیا ۔

نہ جانے ایسی کتنی ہی اموات روز ہوتی ہیں، گھروں میں صف ماتم بچھتی ہے، لوگ اپنے پیاروں کے مرنے کا غم مناتے ہیں، ان لمحات میں یوں لگتا ہے جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے مگر یہ زندگی بڑی عجیب ہے، اِس کی رنگینیاں ایسی ہیں کہ انسان مرنے والے کے ساتھ مر نہیں سکتا۔ موت وہ واحد چیز ہے جس کا ٹریٹمنٹ امیر، غریب سب کے لئے یکساں ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ امیر آدمی کے پسماندگان مرنے والے کی خبر نصف صفحے کے اشتہار کے ذریعے دیتے ہیں جبکہ غریب آدمی کی موت کا اعلان مسجد میں کر دیا جاتا ہے۔ موت کے علاوہ زندگی سے فرار کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے، ہر کسی نے اسی راستے سے واپس جانا ہے، یہی دنیا کی سب سے تلخ سچائی ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے