سنتے آئے ہیں کہ ابر، بادل، بارش، موسموں کی سختیاں اور قدرت کی فیاضیاں، سب کی سب انسانوں کے اعمال کے طفیل ہوتی ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ بد عقیدہ لو گوں کا تو کچھ ٹھیک نہیں ہوتا، ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔ خیر، وطنِ عزیز میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے موسم بدل گیا ہے۔
وہی سردی، جو دسمبر کے آخری دس دن میں قلفی جما کے جنوری میں خاصی حد تک رخصت ہو چکی ہوتی تھی، جنوری میں آئی اور ایسی آئی کہ کالم لکھتے ہوئے، انگلیاں سن ہوئی جا رہی ہیں۔ گاہے دانت بھی بج اٹھتے ہیں۔ شنید ہے کہ کراچی میں اس بار بھی کوئٹہ کی لہر آئی ہے۔ کوئٹہ میں غالباً سائبیریا کی اور سائبیریا میں دانتے کے سرد جہنم کی لہر۔
لہروں کا ذکر آیا تو ایک اور لہر ذہن میں آئی۔ یہ خوف کی لہر ہے۔ اکثر جاسوسی ناولوں میں اس کا ذکر ہوتا ہے اور یہ بھی سرد ہوتی ہے۔ یہ لہر ہیرو کی ریڑھ کی ہڈی میں اس وقت رینگ جاتی ہے جب وہ اپنی جانوں میں بہت اچھا کام کر کے امر ہونے جا رہا ہوتا ہے اور درحقیقت ایک ایسے جال میں پھنس رہا ہوتا ہے، جس سے نکلنا، ناول کی سیکوئیل ہی میں ممکن ہوتا ہے۔
گو میں اس ذکر سے بچنا چاہ رہی تھی لیکن جن لہروں میں لکھنے والا لکھتے ہوئے بہہ رہا ہوتا ہے وہ بعض اوقات ایسے ساحلوں پہ لے جاتی ہیں جہاں کبھی کوئی جہاز نہیں آتا، نہ کوئی آدم ہوتا ہے نہ آدم زاد۔ ان ساحلوں پہ جانے والے اکثر واپس نہیں آتے۔ کسی زمانے میں جزائر انڈیمان کو کالا پانی کہا جاتا تھا اور وہاں ان لوگوں کو بھیجا جاتا تھا جو حکومت کے خلاف کسی سازش میں ملوث ہوتے تھے۔
یہ بھی سنا ہے کہ ٹیپو سلطان کے ساتھیوں کو بھی کالا پانی بھیج دیا گیا تھا اور وہ کبھی گھر نہیں آئے۔ دنیا میں بہت سے مقامات پہ کھدائی کے دوران اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ کون تھے؟ جو بھی تھے، کبھی گھر واپس نہیں جا پائے۔ اسی جنوری کے مہینے میں میرے والد کو نفاذِ نظام مصطفی کے حق میں ریلی نکالنے پر غائب کر دیا گیا۔ میں پیدا ہوئی تو میرے کان میں اذان دینے کو ابا نہ تھے۔
جب ابا واپس آئے تو وہ ٹوٹ چکے تھے۔ اس کے بعد ضیاء کا دور بھی آیا، ابا کی مرضی کی بہت سی دفعات بھی نافذ ہوئیں، مگر ابا ٹوٹ چکے تھے۔ وہ واپس آئے تھے مگر ان کے اندر کا انقلابی وہیں کہیں رہ گیا تھا۔
معاشرے میں رائج اور راسخ اصولوں کو للکارنا، ان پہ آواز اٹھانا، انقلاب کی خواہش رکھنا، زندہ معاشروں کی پہچان ہے۔ ہر شخص کی ایک سوچ ہے، ہر سوچ رکھنے والا شخص چاہتا ہے کہ وہ دنیا کو اپنی مرضی کے راستے پہ چلنے کی ترغیب دے۔ سوچ رکھنا جرم نہیں۔ سوال کرنا جرم نہیں ۔ جواب کی توقع رکھنا بھی جرم نہیں۔
مہذب معاشرے ، سوچنے والوں کا منہ بند نہیں کرتے۔ مہذب معاشروں میں سوچنے والے بھی بے ضرورت منہ نہیں کھولتے۔ ہمیں صحافت کے ضابطہء اخلاق میں ایک سبق سکھایا جا تا تھا کہ غیر مصدقہ خبر اور اس معاملے پہ تبصرے سے گریز کریں جو ابھی عدالت میں زیرِ بحث ہے۔اس بابت کچھ نہیں بتایا گیا تھا کہ جو مقدمہ عدالت میں درج ہی نہ ہو، جو شکایت کہیں لکھی ہی نہ جائے، جس جرم کی فردِ جرم ہی عائد نہ ہو اس پہ تبصرہ کرنا چاہیئے یا نہیں؟
[pullquote]میڈیا[/pullquote]
ڈاکٹر انور سجاد کہا کرتے تھے کہ جس دور میں لکھنے اور بولنے پر پابندیاں عائد ہوں وہاں علامتی طرزِ تحریر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ظاہر ہے ہر لکھنے والے کی خواہش، ہر عام انسان کی طرح یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ شام کو اپنے گھر جائے۔ کون چاہتا ہے کہ اس ظالم سردی میں جب دنیا اپنے گھروں میں گرم لحافوں میں دبکی عافیت کے خواب دیکھتی ہو، وہ سرد فرش پہ ایک پرانا کمبل اوڑھے سوچ رکھنے کے جرم کی سزا پا رہا ہو۔
مگر ایک تکلیف جو اس تکلیف سے بھی بڑی ہے اور کوئی بھی لکھنے والا اس سے گزرنے سے بچنے کو بڑی سے بڑی تکلیف ہنس کر برداشت کرنے کو تیار ہوتا ہے ، وہ ہے اپنی بات نہ کہہ سکنا۔ جس معاشرے میں یہ چلن عام ہو جائے اس میں رہنے کے تصور ہی سے میری ریڑھ کی ہڈی میں وہی سرد لہر دوڑ جاتی ہے جو امر ہونے سے چند لمحے پہلے کسی بھی جا سوسی ناول کے ہیرو کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑتی ہے۔ لکھنے والے اپنی جانوں میں بہت اچھا کام کرتے ہیں لیکن افسوس وہ اپنی کہانی کے ہیرو نہیں ہوتے، انہیں اکثر سیکوئیل میں بطور ہیرو یاد کیا جاتا ہے۔
دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک، گھر واپس نہ پہنچنے والو! نوید ہو کہ تم امر ہو چکے ہو، برف پگھلنے دو، جب بہار کے پھول کھلیں گے اور پہاڑوں پہ چشمے رواں ہوں گے، پرندے ، شہد کی مکھیاں اور بھنورے،بادلوں کی گرج اور دریاوءں میں بہتے پا نی کی مہیب آواز یہ سب تمہاری زبان ہوں گے! اتنی زبانوں کو، اتنی آوازوں کو کون دبائے گا؟ مگر اس وقت اس کڑاکے کی سردی میں جب انگلیاں برف ہوئی جا رہی ہیں یہ ہی دکھ ہے کی آج بھی کچھ لوگ گھر نہیں آئے!