ایک شخص کو کتنی زمین درکار ہوتی ہے؟

راحیل شریف صاحب کو عطا کی گئی زمین کی خبر پڑھی تو ایک کہانی یاد آئی اور ایک بھولی بسری نظم نے یادوں پر دستک دی۔کہانی تو لیو ٹالسٹائی کی ہے ، شاعر مجھے یاد نہیں۔

ٹالسٹائی کی کہانی کا عنوان ہے : ایک آدمی کو کتنی زمین چاہیے؟کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک شخص کو زمین کی بہت خواہش تھی۔اسی خواہش کے تعاقب میں وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں بے حد سستی زمین مل رہی تھی۔فروخت کرنے والے نے حیران کن طور پر صرف ایک ہزار روبل قیمت طلب کی اور اس شخص سے کہا کہ وہ ایک دن میں طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک جتنی زمین پر چل لے وہ زمین اس کی ہو جائے ۔ شرط صرف یہ تھی کہ غروب آفتاب تک اسے واپس اسی جگہ پہنچنا ہو گا جہاں سے وہ چلا تھا۔

وہ شخص خوشی خوشی چل پڑا۔اتنی غیر معمولی پیش کش نے اس کے جسم میں بجلیاں بھر دیں۔اس کے قدم بجلی کی تیزی سے اٹھتے رہے کیونکہ ہر قدم اس کی جاگیر میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔کئی جگہوں پر اس نے سوچا کہ اب بہت ہو گیا یہاں سے واپس جانا چاہیے لیکن پھر خیال آتا کہ تھوڑا سا اور چل لینا چاہیے اور جاگیر میں تھوڑا سا اور اضافہ کر لینا چاہیے۔اسی دھن میں وہ چلتا گیا اور اپنی جاگیر بڑھاتا چلا گیا۔پھر وہ واپس مڑا ۔اب اسے سورج غروب ہونے تک وہاں پہنچنا تھا جہاں سے وہ چلا تھا۔ سفر زیادہ تھا اور وقت کم ۔وہ بھاگتا رہا ۔یہاں تک کہ اس کی منزل قریب آ گئی۔اور پھر عین وقت پر وہ منزل پر پہنچ گیا۔اسے تالیاں بجا کر داد دی گئی ۔لیکن وہ اس خوشی میں شریک نہ ہو سکا ۔ تھکاوٹ سے بے حال ہو کروہ گرا اور مر گیا۔اسے چھ فٹ کے قبر میں دفن کر دیا گیا۔غالبا دفن کرنے والوں میں سے کسی نے افسوس کے عالم میں خود کلامی کی کہ ایک شخص کو کتنی زمین درکار ہو تی ہے؟

یہ سوال ہر دور میں اہم رہا۔لیکن جب اس سوال کا مخاطب کوئی ایسا شخص ہو جو ہیرو بھی رہا ہو اور جس کے لیے قوم با جماعت شکریہ شکریہ گنگناتی رہی ہو تو پھر اس سوال کی معنویت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔راحیل شریف محض ایک ریٹائرڈ جرنیل ہوتے تو ہم جارج آرول کے اینیمل فارم کو یاد کر کے خاموش ہو جاتے لیکن راحیل شریف تو ایک ہیرو ہیں۔ہمیں تو بتایا جاتا رہا کہ ان کو جو پلاٹ ملا وہ بھی انہوں نے شہدا کو دے دیا۔تو اب انہیں زمین کی کیا ضرورت تھی؟

ایک اور سوال اس بھی اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ زمین 14 دسمبر 2014 کو دیا جانا کیا محض ایک اتفاق ہے؟ دھرنا بھی غالبا انہی دنوں میں ختم ہوا تھا۔زمینیں تو بالعموم دی بھی جائیں تو ریٹائر منٹ کے بعد نہیں دی جاتیں؟

افتخار چودھری بھی ہمارے ہیرو تھے۔ انہوں نے بھی پلاٹ لینے سے انکار کیا تھا۔انہیں بھی قوم نے پلکوں میں بٹھایا ۔پھر ایک روز ان کا خط سامنے آتا ہے کہ وہ چیف جسٹس کو خط لکھ رہے ہیں ۔۔۔ایک پلاٹ کے لیے۔

ایک حکمران تھا سوئس بنکوں کی دولت بچانے میں لگا رہا اب شریفانہ طرز حکومت پانامہ لیکس میں رسوا ہو رہی ہے. سادہ سے سوال پر لیکن کوئی غور نہیں کر رہا. سوال وہی ہے: ایک شخص کو کتنی زمین چاہیے؟

یہ جواز علم کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں رکھتا کہ قانون اس کی اجازت دیتا تھا. قانون مقتدر طبقات کے لیے ہی اتنا نرم دل کیوں ہے؟ جرنیل کو پلاٹ ججوں کو پلاٹ بیوروکریسی کو پلاٹ صحافیوں کو پلاٹ صرر کو استثناء وزیر اعظم کو استثناء. اس قانونی سکیم کو بدل دیا جانا چاہیے. خلفائے راشدین سے نہ سہی اوبامہ ہی سے کچھ سیکھ لیجیے.

مجھے کسی کے استحقاق سے غرض نہیں۔میرا سوال تو یہ ہے کیا اس قوم کو کوئی ایسا فرد بھی کبھی ملے گا جس کا نام پیار اور محبت سے لیتے ہوئے زبان لڑکھڑا نہ جائے۔ جو قوم کے لیے جیے۔جو ایک ہیرو کی طرح جیے۔

ہم میں کوئی دجل رشید بھی ہے ؟کوئی دوسروں سے مختلف بھی ہے؟یا سبھی عام ہی ہیں؟

نظم معلوم نہیں کس شاعر کی ہے لیکن یاد بہت آ رہی ہے۔

جھیل کے کنارے پر
ایک شام بیٹھا تھا
ڈھل رہا تھا سورج اور
آسماں پہ سرخی تھی
جھیل کے کنارے کے
منفرد سے حصے کو
ایک لہر دانستہ
چومتی رہی پل پل
دیکھ کر عنایت اور
دیکھ کر کرم اس کا
جھیل کے کنارے کے
سادہ لوح حصے نے
لہر سے کہا اتنا
تم بہت ہی اچھی ہو
آؤ ایک ہو جائیں
چاہتوں میں کھو جائیں
بدلے بدلے لہجے میں
لہر نے یہ فرمایا

میں تمہیں کناروں سے
مختلف سمجھتی تھی
تم بھی عام سے نکلے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے