زندگی کی کیمیائی جنگ

ہمارا ہر لقمہ، ہر گھونٹ کیمکل کے زھر میں رچا ہوا ہے، غذائیت کے نام پر کتنا زھر ہماری نسلوں کو برباد کر رہا ہے قطعی طور پر اسکا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اگرچہ ملاوٹ ایک عالمی مسئلہ ہے مگر یورپ اور امریکہ اس فن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاسنگ بھی نہیں، پاکستان میں کیمیائی ملاوٹ کا جن حکومت اور اداروں کے قابو سے باہر ہو کر ایک مافیا کا روپ دھار چکا ہے۔ دودھ سے لیکر مشروبات تک، مصالحہ جات سے گوشت اور ادویات تک، کوئی چیز محفوظ نہیں، بالواسطہ اور بلاواسطہ ملاوٹوں کا بیدردی سے شکار بنایا جا رہا ہے۔ بالواسطہ ملاوٹ ٹھوس یا مائع غذا میں براہ راست ملائی جانیوالی اشیا اور بالواسطہ ملاوٹ میں ایسے عمل آتے ہیں جو پیداوار بڑھانے کیلئے اختیار کیے جاتے ہیں جیسے کیمیائی کھاد، مویشیوں کی لگائے جانیوالے انجکشنز اور خوراک وغیرہ، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں اقسام کی ملاوٹ پاکستان میں اس سنگین سطح پر ہے کہ جسکا اندازہ کرنا بھی مشکل کام ہے نہ کہ سد باب۔

آپ یقین کریں دودھ میں پانی، سیاہ مرچ میں پپیتے کے بیج، سرخ مرچ پائوڈر میں رنگ اور چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے ملانیوالے تو محسن نظر آتے ہیں۔ نوبت یہاں جا پہنچی ہے کہ دودھ میں ڈٹرجنٹ پائوڈر، سوڈیم کلورائیڈ، یوریا اور فارمولین جیسے خطرناک کیمکلز ملائے جا رہے ہیں، فارمولین سے ذریعے لاشوں کو محفوط رکھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی مادے براہ راست جگر، گردوں کو براہ راست نشانہ بنانے کیساتھ کیینسر جیسے موذی مرض کا باعث بنتے ہیں۔ ایک زمانے تک یہ بتایا جاتا رہا کہ ڈبہ بند مصنوعات مکمل محفوظ ہیں اب ڈاکٹرزڈبہ بند دودھ اور جوسز کو زھر قرار دیتے ہیں۔ ڈبہ بند مصنوعات کے علاوہ چپس اور دیگر ایسی اشیا جنہیں کیمکل کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے ڈاکٹرز کے نزدیک نہایت خطرناک ہیں جبکہ معروف برانڈز کی یہ اشیا ہم محفوظ جان کر بچوں کو بڑے شوق سے کھلاتے اور پلاتے ہیں۔ کروڑوں کی اشتہاری مہموں نے ہمارے ذھنوں کا مسخر کر رکھا ہے اور غیر محفوظ یا مضر صحت مصنوعات ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔

اب آ جائیے بلاواسطہ ملاوٹ کی جانب، مرغیوں کو دی جانیوالی خوراک میں مردار گوشت، ہڈیاں، فضلہ، سستی شراب اور متفرق کیمیکل شامل کیے جاتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو سور کا گوشت بھی استعمال کیا جاتا ہے تا کہ چوزہ صرف 5 ہفتوں میں بھاری بھرکم مرغی کو روپ دھار لے، اسکے علاوہ چوزوں کے پروں میں انجکشنز کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ عمل متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہے بلکہ بعض معالجین کے نزدیک لڑکیوں میں بانجھ پن کا باعث بنتا ہے۔ دودھ کی پیداوار بڑھانے کیلئے گائیں اور بھینسوں کو مختلف انجکشنز لگائے جاتے ہیں، گوشت کی مقدار بڑھانے کیلئے کیمیکل زدہ خوراک فراہم کی جاتی ہے۔حتیٰ کہ مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں کی فارمنگ کے بعد اب آبی غذا بھی کیمکل سے پاک نہیں۔کھیتوں میں پیداوار بڑھانے کیلئے مختلف قسم کی کیمیکل کھادیں استعمال کی جاتی ہیں۔ غذائی پیداوار بڑھانے کا عمل پوری دنیا میں ہوتا ہے مگر اس کے سخت قواعد و ضوابط نافذ ہیں جبکہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ منافع کی ہوس میں تمام حدیں پار کر لی گئیں، حد تو یہ ہے کہ ملٹی نیشنل اور بڑی کمپنیاں بھی اس دوڑ میں شامل ہیں

عوام میں موت بانٹنے والے یہ منافع خور کسی رحم کے مستحق نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں غذا کے نام پر زھر فروخت کرنیوالوں کی مافیا نہایت مضبوط ہے، پیچھے بڑی بڑی شخصیات اور نام نہاد ادارے ہیں۔ دودھ، مرغیوں، گوشت اور پانی جیسے معاملوں پر عدالتیں بھی آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ سپریم کورٹ ملک بھر میں پھیلے سرکاری یوٹیلٹی اسٹورز پر فراہم کیے جانیوالے گھی اور تیل کے تمام برانڈز کے معیار پر سوالیہ نشان لگا چکی ہے۔ ٹیٹرا پیک، پلاسٹک پائوچ اور منرل واٹر والی پلاسٹک بوتلوں کو بھی مضر صحت قرار دیا جا چکا ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد اب یہ معاملہ صوبائی حکومتوں کا ہے۔ پنجاب کے علاوہ پورے ملک میں مضر صحت غذا کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی۔ پنجاب نے فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2011 کو نہ صرف موثر بنایا ہے بلکہ بڑے بڑے ناموں کے مکروفریب کو ثابت کر کے دوسرے صوبوں کیلئے ایک مثال قائم کی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی مختلف شہروں میں سرگرم ہے اور بڑے برانڈز کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ادارے تو ہیں مگر شاید اسی مافیا کا حصہ ہونے کے باعث بڑی تو کجا چھوٹی کارروائیوں کے بھی روادار نہیں۔ ہمارے ملک میں نہ صرف یہ کیمکلز کم معیار کے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ انکے تناسب کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، بسا اوقات متبادل اور سستے کیمکلز بھی استعمال کیے جاتے ہیں جو انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نگرانی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں، اگر کبھی کوئی بڑی کمپنی پکڑ لی جائے تو قیامت آ جاتی ہے۔

مغرب، عرب ممالک حتیٰ کہ سری لنکا اور بھارت میں بھی غذائی اشیا کی نگرانی کا نظام انتہائی موثر ہے۔ یورپ اور امریکہ کی تو بات چھوڑیں جہاں ملاوٹ اور مضر صحت کیمیکلز کو سنگین ترین جرم سمجھا جاتا ہے، عرب ممالک میں اگر ایسا کچھ ثابت ہو جائے تو کمپنی پر پابندی کے علاوہ بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں خواہ مقامی ہو یا عالمی، گزشتہ سال بھارت میں نیسلے کے پروڈکٹ ماگی نوڈلز کے مضر صحت ہونے پر پابندی لگائی گئی۔

دنیا کے ممتاز برانڈ نے نہ صرف اپنی مصنوعات مارکیٹ سے واپس لیں بلکہ کم و بیش نصف ارب ڈالر کا خسارہ بھی برداشت کیا۔ پاکستان میں بھی عالمی کمپنوں کی مصنوعات کے معیار پر سوال اٹھتے رہے ہیں، لیبارٹری رپورٹس بھی سامنے آتی ہیں مگر اب تک کوئی بڑی کارروائی نہیں کی جا سکی۔ اسکی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس پر اب تک موثر قانون سازی نہیں کی جا سکی۔ تیس، چالیس سال پرانے فرسودہ قوانین میں جرمانے اور سزائیں اتنی کم ہیں کہ انکا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ متعلقہ محکمہ جات نہ صرف مطلوبہ اختیارات و وسائل سے لیس نہیں بلکہ رشوت ستانی کے باعث فوڈ مافیا کا حصہ بن چکے ہیں۔

تو جناب ہماری زندگی کیمیائی زھر سے مالامال ہے، مگر کیا اس سنگین مسئلے کو صرف حکومت پر چھوڑا جا سکتا ہے، کیا اپنی نسل کو برباد ہوتے دیکھا جا سکتا ہے؟ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس دور میں غذا کو کیمکلز کی آلودگی سے بچانا مشکل ہے مگر کسی حد تک ضرور بچا جا سکتا ہے۔ پلاسٹک کے استعمال سے اجتناب اور کیمیکل زدہ اشیا سے گریز ضرور کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کیلئے آئندہ انتخابات، پاناما لیکس، کرپشن اور نجانے کیا کیا کچھ اہم ہے، غذائی آلودگی پر وفاق اور صوبائی حکومتوں سمیت نہ کسی کی توجہ ہے اور نہ ہو گی، تو پھر حل صرف آپ کے پاس ہے، اپنی زندگی کو، اپنی نسل کو جس حد تک ہو سکے کیمیائی آلودگی سے دور رکھنے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں ناں !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے