پُلس والا
پولیس ۔ یہ لفظ سنائی دیتے ہی جو الفاظ لہک کر ہمارے دماغ میں آتے ہیں وہ ہیں رشوت خور، بے ایمان ، بے حس اور تشدد۔ معلوم نہیں یہ تاثر کتنا غلط ہے یا کتنا درست ۔
بہرحال میں نے آج آپ کو ایک کہانی سنانی ہے ۔ یہ کہانی ایک عام پولیس والے کی ہے ۔ پولیس والا ایک بڑے شہر میں ڈیوٹی کرتا ہے۔ جہاں اس کو جرائم کے ساتھ ساتھ اعلی افسران، وزراء اور مشیروں کے پروٹوکول کے فرا ئض بھی سرانجام دینے پڑتے ہیں۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں ۔ یہ پولیس والا شہر میں آئے روز ہونے والے اجتجاج، جلسے جلوس، اہم شخصیات اور مقامات کی حفاظت اور دھرنوں کی سیکیورٹی کا بھی ذمہ دار ہے ۔ لیکن بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی ۔ محرم و میلادکی محافل ہوں ، عُرس ہوں، عید کی چھٹیاں ہوں ، قومی تہوار ہوں ، کوئی میچ ہو، جمعہ اور عیدین کی جماعت ہو۔
کہیں غَم کا سَماں ہو یا خُوشی کا جشن، عدالت ہو ، کوئی دفتر ہو یا پھر مزار امام بارگاء ہو کہ مسجد ، سڑک ہو یا تفریحی مقام یہ پولیس والا آپ کو ہر جگہ نظر آتا ہے۔ اُس کی ڈیوٹی کے لئے وقت اور موسم کی بھی کوئی قید نہیں ۔ صبح ہو یا شام ، سردی اور جھاڑے کی لمبی راتیں ہوں یا تپتی ہوئی گرمیوں کے لمبے پہر، بغیر کسی ہیٹر ، پنکھے اور کھانے پینے کی سہولت کے یہ پولیس والا ہماری حفاظت کے لئے کھڑا رہتا ہے ۔
ہمارے ملکی حالات کے پیش نظر، یہ پولیس والا ایک ایسی ڈیوٹی بھی نبھا رہا ہے جس کی نہ اسے تربیت دی گئی ہے اور نہ ہی اُس کے پاس مقابلہ کرنے کے وسائل ہیں اور یہ ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ اس جنگ میں پولیس فرنٹ لائن پر ہے کیونکہ یہ جنگ کسی سرحد پر نہیں بلکہ شہروں کے اندر لڑی جا رہی ہے ۔ اِسی جنگ میں کبھی وہ خُود کش کو گلے لگا کر شہید ہوتا ہے تو کبھی ہماری حفاظت کرتے ہوئے کسی بم دھماکے کا نشانہ بنتا ہے۔ یہ پولیس والا بم کو ناکارہ بناتے ہوئے یا دہشت گردوں کے ساتھ کراس فائرنگ میں زخمی یا شہید ہوتا ہے ۔
اس سب کے باوجود اس کو کیا ایوارڈ یا ریوارڈ ملتا ہے ۔ ذرا سوچئے ؟
آج کل جہاں مختلف ٹیلی وژن چینلز پر ریٹنگ میں آگے بڑھنے کے لئے رُومانس سے بھرپور ڈرامے نشر کئے جا رہے ہیں وہاں پی ٹی وی نے ڈرامہ سیریز ’’فرض‘‘ کے ذریعے ایک منفرد موضوع پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے جس میں پولیس کے حقیقی کردار کو بھرپور انداز میں پیش کیا جائے ۔ ڈرامہ سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ ایک پولیس انسپکٹر کی فیملی اپنے واحد کفیل کی شہادت کے بعد کن سخت حالات سے دوچار ہے ۔ انسپکٹر کے بچے اس کی زندگی میں اس بات پر شاکی رہے کہ اس نے نہ تو ان کو کبھی بچپنے کا پیار دیا ، نہ ہی ان کے ساتھ کبھی وقت گزارا۔ جب سب لوگوں کو چھٹیاں ہوتی۔ یہ تب بھی اپنے بابا کا انتظار کرتے کرتے سو جاتے ۔ کبھی مہینوں میں ایک ایسا دن آتا کہ وہ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔
ڈرامے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اس کی فیملی اس کی شہادت کے بعد در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ اس ڈرامے میں پولیس والے کی خاندانی زندگی ، پولیس ڈیپارٹمنٹ کے حالات،محدود وسائل شہادت اور پھر اس کے بعد کے مسائل کو بھرپور ڈائیلاگزاور کرداروں کی پختگی کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس ڈرامے کو عامر رضا نے تحریر کیا ہے جن کا قلم معاشرے کے ان مسائل کو اجاگر کرتا ہے جن پر عام کہانی کار کی نظر نہیں جاتی۔کہانی کار نے ڈراموں میں روایتی طور پر دکھائے جانے والے ’’صنف نازک‘‘ کے کردار کی نفی کی ہے اور انسپکٹر کی بیٹی کو ایک مضبوط کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس ڈرامے میں لڑکی کو روتا ہوا دکھانے کی بجائے ایک ایسی مضبوط لڑکی دکھایا گیا ہے جو باپ کی شہادت کے بعد نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہے بلکہ پولیس میں بھرتی ہو کر پولیس کے مشن کو بھی آگے بڑھاتی ہے۔
ایک ریاستی چینل سے اس طرح کے کردار کو اجاگر کرنا یقینا پر اثر ہو گا۔ ڈرامہ سیریل میں نعمان اعجاز ، سونیا مشال ، عذرا آفتاب اور قوی خان اپنے کرداروں کے ساتھ نمایاں ہیں۔