آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کا کہنا ہےکہ لاہور دھماکا خودکش حملہ تھا جس کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔
جماعت الاحرار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ فوج، پولیس ،مخالف سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کرنے جا رہے ہیں
اس آپریشن کو لال مسجد کے مقتول نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے تاہم لال مسجد کے امام اور خطیب مولانا عبدالعزیز، ان کی اہلیہ ام حسان، علامہ عبدالرشید غازی کے بیٹے ہارون غازی اور لال مسجد شہداء فاونڈیشن نے اس آپریشن سے ان کا کوئی تعلق نہیں، انہوں نے جماعت الاحرار کو اسلام دشمن اور پاکستان دشمن دہشت گرد جماعت قرار دیتے ہوئے اس کی کاروائیوں کی مذمت کی ہے ۔
لاہور سانحے میں میں شہید ہونے والے 13 افراد میں 6 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں جن میں ایلیٹ کے 2 جوان بھی شہید ہوئے جب کہ واقعے میں 83 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم کالعدم تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار نےگذشتہ دو سالوں میں لاہور میں یہ پانچواں بڑا حملہ کیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے اگست 2014 میں علیحدہ ہونے کے فوراً بعد نومبر میں اپنا پہلا بڑا حملہ لاہور کے ہی قریب واہگہ بارڈر پر کیا تھا جس میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے چند روز بعد اس گروپ نے امن کمیٹی کے اراکین کو مہمند ایجنسی میں نشانہ بنایا جس میں چھ افراد نے جانیں کھوئیں۔
خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم سے نظریاتی طور پر متاثر جماعت الاحرار نے لاہور کو اس سے قبل بھی نشانہ بنایا تھا۔
گذشتہ برس مارچ میں انھوں نے لاہور کے یوحنا آباد کے دو گرجا گھروں پر حملے کیے جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس گروپ نے ایک مرتبہ پھر لاہور کے گلشن اقبال نامی ایک پارک میں جہاں مسیحی برادری کو جو ایسٹر کا تہوار منانے کے لیے جمع تھی ہدف بنایا۔
امریکا جماعت الاحرار کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ سلامتی کے ادارے پاکستان میں سرگرم تمام دہشت گردوں گروپوں میں سے جماعت الاحرار کو سب سے زیادہ شدت پسند قرار دیتے ہیں۔ اسی تنطیم نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور 2016ء کے آغاز پر لاہور کے ایک پارک پر ہونے والے حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی۔
جماعت الاحرار رواں سال مارچ میں پشاور میں امریکی قونصلیٹ کے 2 پاکستانی ملازموں کو ہلاک کرنے کی ذمہ دار ہے،
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جماعت الاحرار اپنے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں بیٹھ کر کرتی ہے او وہیں پر شدت پسندوں کو تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستانی فوج نے 2010ء میں مہمند ایجنسی میں داخل ہو کر تمام شدت پسند تنظیموں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ تاہم اب کہا جا رہا ہے کہ اب دوبارہ سے مہمند ایجنسی میں جماعت الاحرار کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا ہے۔ مہمند ایجنسی کو اس تنظیم کا گڑھ کہا جاتا ہے