پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر سیہون میں لال شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد سرکاری رد عمل سے ایک انتہائی اہم پہلو ابہام کا سامنے آیا ہے۔اس جان لیوا حملے کی ذمہ داری خود کو دولتِ اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم نے قبول کی ہے لیکن افغانستان سے سرکاری سطح پر کارروائی کا مطالبہ صرف جماعت الاحرار کے بارے میں کیا گیا ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سرکاری مشینری شدت پسندوں کی جانب سے اتنے شدید حملوں کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ ان کے خیال میں آپریشن ضرب عضب نے شدت پسندوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور وہ پچھلے برس کی طرح ِاکا دکا حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ حکام سمجھتے ہیں کہ انھیں بھی غیرمعمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جی ایچ کیو میں افغان حکام کی طلبی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ جماعت الاحرار نے یقیناً لال شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والے خود کش دھماکے سے قبل کئی حملوں جیسے کہ لاہور کی مال روڈ پر، بلوچستان میں آواران کے فوجیوں، پشاور میں ججوں کی وین پر اور تین فوجیوں کی بارودی سرنگ کے دھماکے کی ذمہ داریاں اپنے سر لی ہیں۔
تاہم اس ہفتے کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے اپنی نئی خبر رساں ایجنسی عماق کے ذریعے جاری کی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا جماعت الحرار اس حملے پر خاموش ہیں۔ ادھر پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے افغانستان میں قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے ساتھ فون پر گفتگو میں انھیں بتایا کہ تشدد کے حالیہ واقعات میں جماعت الحرار ملوث ہے اور افغانستان سے مسلسل کارروائیاں کر رہی ہے۔ اس گفتگو کے حوالے سے جاری کیے جانے والے بیان میں نہ تو کالعدم تحریک طالبان اور نہ ہی دولت اسلامیہ کا ذکر شامل ہے۔ اس کی وجہ یا تو حکومت پاکستان دولت اسلامیہ کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتی یا پھر سرتاج عزیز نے اس فون کال کی تیاری سیہون کے واقعے سے قبل کی تھی۔
سرتاج عزیز کو اگر بات کرنی تھی تو مجموعی بات کرنے چاہیے تھی۔ ایک گروپ سے افغانستان میں نمٹنے سے کیا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ جماعت الاحرار نے جو اپنے غازی کارروائی سے متعلق ویڈیو جاری کی اس میں تنظیم کے امیر خالد خراسانی دیگر شدت پسند تنظیموں سے اتحاد اور اتفاق کی اپیل کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’اگر کوئی بچہ بھی اس نئے اتحاد کی قیادت سنبھالتا ہے تو وہ اس کے زیر انتظام کار کرنے کو تیار ہیں‘۔
اس اپیل پر دیگر تنظیموں کا تو ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن ماضی میں یہ تنظیمیں ایک دوسرے کا حصہ رہی ہیں۔ نظریاتی طور پر سب تقریباً ایک ہیں لیکن آپریشن کی حد تک الگ الگ ہیں۔ دولت اسلامیہ میں بھی تحریک طالبان کے ناراض لوگ چلے گئے تھے اور جماعت الحرار بھی اتحاد کے بعد الگ ہوئی۔ مبصرین کے خیال میں پاکستان میں دولت اسلامیہ کے دیگر تنظیموں کے ساتھ اتحاد کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستانی شدت پسندوں کے لیے اتحاد ضرب عضب سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے۔جماعت الاحرار نے اپنے بیان میں عوامی مقامات پر حملے نہ کرنے کی بات کی ہے لہٰذا ایسے مقامات پر حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ باآسانی اپنے سر لے سکتی ہے۔ تاہم اب سب سے بڑا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اب ایسا کیا ہوا کہ یہ تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ تشدد کا سلسلہ کم یا زیادہ تو چلا آ رہا ہے لیکن اس میں تیزی کی بڑی وجہ یہی سمجھ میں آ رہی ہے کہ شاید شدت پسند پاکستان فوجی کی کمان میں تبدیلی کے بعد نئی قیادت کو ٹیسٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔