اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وزارت داخلہ اور ایان علی کی توہین عدالت کی درخواستیں خارج کر دیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایان علی کی جانب سے دائر کی گئی توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایان علی کی جانب سے دائر کیے گئے توہین عدالت کیس پر فیصلہ دے چکے ہیں، ساتھ ہی انھوں نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کے احکامات پر عملدرآمد ہو چکا ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے کسی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو ہم اس معاملے کو ہائیکورٹ پر نہیں چھوڑیں گے، بلکہ خود دیکھیں گے۔
اس موقع پر وزارت داخلہ کے وکیل کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست پر نقطہ چینی پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت عظمیٰ نے وزات داخلہ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر آپ کا اصرار ہے تو پورے معاملے کو دوبارہ دیکھ لیتے ہیں، پھر یہ نہ ہو کہ آپ ہائی کورٹ کی توہین عدالت بھول جائیں اور ہم خود آپ کو توہین عدالت پر طلب کرلیں’۔
جس پر وزارت داخلہ کے وکیل نے یقین دہانی کروائی کہ وہ حکومت سے ہدایت لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔
سماعت کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے حکم کے بعد تمام درخواستیں غیر مؤثر ہو چکی ہیں، لہذا ایان علی کے بیرون ملک جانے پر کوئی پابندی نہیں۔
عدالت نے ایان علی کانام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نامہ برقرار رکھتے ہوئے توہین عدالت سے متعلق دونوں فریقین کی تمام اپیلیں مسترد کردیں۔
ایان علی کیس—کب کیا ہوا؟
ماڈل ایان علی کو 14 مارچ 2015 کو اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دبئی جاتے ہوئے اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب دورانِ چیکنگ ان کے سامان میں سے 5 لاکھ سے زائد امریکی ڈالر برآمد ہوئے تھے۔
ایان علی کے خلاف کرنسی اسمگلنگ کا مقدمہ درج ہونے کے بعد انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا جس کے بعد ان کے خلاف کسٹم کی عدالت میں سماعت شروع ہوئی اور کسٹم کے عبوری چالان میں انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا۔
بعد ازاں ایان علی نے راولپنڈی کی کسٹم عدالت اور لاہور ہائی کورٹ میں اپنی ضمانت کی درخواست دائر کی جسے مسترد کردیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی دوسری درخواست کا فیصلہ ماڈل کے حق میں آیا جس کے بعد انہیں عدالت کے حکم پر جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔
تاہم رہائی کے بعد سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے فیصلہ آجانے کے بعد بھی وفاقی حکومت اور محکمہ داخلہ کی جانب سے پیش کیے گئے مختلف جوازوں کی بناء پر ماڈل کو بیرون ملک سفر کی اجازت حاصل نہ ہوسکی اور ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا۔
وزارت داخلہ کا موقف ہے کہ چونکہ ایان علی کسٹمز انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کے مقدمے میں نامزد ہیں، اسی بناء پر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔
ایان علی کسٹمز انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کیس میں ضمانت پر ہیں۔
دوسری جانب کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کی بیوہ کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں ایان علی کے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا، لہذا عدالت اپنا وہ حکم واپس لے تاکہ ایان علی کو شامل تفتیش کیا جا سکے۔