کم عمری کی شادی: شعور اجاگر کرنے کیلئے انوکھی مہم

پاکستانی معاشرے میں کم عمری کی شادیاں کوئی انوکھی بات نہیں، بیشتر مقامات پر اب بھی نو عمری میں ہی شادی جیسی اہم ذمہ داری لڑکیوں کے کاندھوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

اس معاشرتی رواج کے تدارک کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے فیشن ڈیزائنر وقار جے خان نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔

وقار کی اس مہم میں تین لڑکیوں کو دیکھا جاسکتا ہے جنہیں دلہن کی طرح تیار کیا گیا، اسی تصویر کی ایک جانب ان لڑکیوں کو کھلاڑیوں کے روپ میں پراعتماد انداز اپنائے دکھایا گیا ہے۔

فیشن ڈیزائنر وقار کا کہنا تھا کہ ‘اس تصاویر کا مقصد بچپن میں کی گئی شادیوں کو سامنے لانا ہے، جو عموماً اورنگی جیسے علاقوں میں ہوتی ہے، اس مہم کے ذریعے درست لوگوں سے رابطہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ سب کو بتایا جاسکے کہ ان علاقوں میں کیا ہورہا ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس فیشن شوٹ کا مقصد آگاہی پیدا کرنا اور کھیلوں کے میدان میں لڑکیوں کو آگے آنے کا موقع دینا ہے’۔

تصاویر میں لڑکیوں کو دلہن کے روپ میں بے اختیار اور مایوس دکھایا گیا ہے جبکہ دوسرے رخ میں بطور کھلاڑی ان کے مضبوط اور پراعتماد تاثرات واضح ہیں۔

اسٹائلسٹ کے مطابق مہم کا مقصد اس بات کو اجاگر کرنا ہے کہ جلدی شادی کس طرح لڑکی کے مستقبل کو تباہ کرسکتی ہے۔

وقار جے خان مزید کہتے ہیں کہ ‘ان غربت زدہ علاقوں میں رہائش پذیر افراد جلد سے جلد اپنی بیٹیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پہلی فرصت میں ان کی شادی کردیتے ہیں تاہم اگر یہی والدین اپنے بچیوں کو پرفارم کرتا دیکھ لیں تو تربیت حاصل کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں’۔

اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 12 سالہ باکسر ثمن، جو 8ویں جماعت کی طالبہ ہے، اپنے گھرانے سے کھیل کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی پہلی لڑکی ہے، فوٹو شوٹ کا حصہ دیگر دو لڑکیوں میں فٹبالر ایشا کی عمر 10 سال ہے جو 5ویں جماعت میں پڑھتی ہے اور کرکٹر اریبہ کی عمر 8 سال ہے جو چوتھی کلاس کی طالبہ ہے۔

ڈیزائنر کے مطابق انہیں پروجیکٹ پر کام کرنے کا خیال اس وقت آیا جب وہ اپنی ٹیم کے ساتھ اورنگی ٹاؤن گئے اور کوچ ذاکر کی نگرانی میں چلنے والے مسلم اسپورٹس کومپلیکس اورنگی غربی کا رخ کیا۔

وقار جے خان کے مطابق اسپورٹس کمپلیکس میں لڑکیوں کو مختلف کھیلوں کی تربیت دی جاتی تھی مگر حیرت انگیز طور پر وہاں خواتین بھی موجود تھیں جبکہ چھوٹی لڑکیاں بھی جو فٹبال اور کک باکسنگ سیکھنے میں مصروف تھیں۔

اس کمپلیکس کے کوچ کے مطابق ابتدائی طور پر انہیں لڑکیوں کو کھیلوں کی تربیت دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم بعد میں ان کی نگرانی میں ہر طرح کا فرق ختم ہوگیا۔

کوچ کا کہنا تھا کہ یہ جگہ صرف ایک اسپورٹس کمپلیکس نہیں بلکہ یہاں مختلف طبقات کے درمیان برداشت کی فضا قائم ہوتی ہے، ‘یہ لڑکیاں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتی ہیں، بلوچی، پٹھان، اردو بولنے والے، سندھی وغیرہ لیکن یہاں یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تربیت حاصل کرتی ہیں’۔

وقار جے خان کے مطابق ‘ہمیں اس مقصد پر غور کرنا ہوگا، ہم زیادہ کچھ تو نہیں کرسکتے لیکن اس کے بارے میں بات کرسکتے ہیں اور ان لڑکیوں کی مدد کرسکتے ہیں’۔

فیشن ڈیزائنر وقار جے خان اس سے قبل پاکستان کی پہلی مخنث ماڈل کامی سد کو بھی فیشن انڈسٹری میں متعارف کروا چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے