اس عمر میں بھی نان سیریس گردانا جاتا ہوں ،صنف نازک سے محبت میں منیر نیازی کی پیروی کرتا ہوں:سینئر صحافی خاور نعیم ہاشمی کی اپنی 63 ویں سالگرہ کی تقریب سے ”غیر صحافتی ”گفتگو

لاہور پریس کلب کی طرف سے آزادی صحافت کے ہیرو و لیجنڈ صحافی خاور نعیم ہاشمی کی تریسٹھ ویں سالگرہ کے موقع پر ہفتہ کے روز ایک پر وقار و یادگار تقریب " ایک شام ، خاور نعیم ہاشمی کے نام " کے عنوان سے منعقد کی گئی . جس کی صدارت صدر لاہور پریس کلب محمّد شہباز میاں جبکہ نقابت سیکرٹری کلب عبدالمجید ساجد نے کی.

سالگرہ کی تقریب کے شرکاء سینئر و جواں سال صحافیوں کی بڑی تعداد سے اپنے اختتامی خطاب میں اظہار خیال کرتے ہوے خاور نعیم ہاشمی نے غیر صحافتی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کی شام ان تمام دوستوں کے نام کرتا ہوں جو گزشتہ چار دہائیوں سے مل رہے ہیں اور جنہیں میں نے کھو دیا ہے.میں اس دوران ایرک سپرین ، ظہیر کشمیری ، عباس اطہر ، حسین نقی اور خاص طور پر شوکت صدیقی سے بہت متاثر ہوا. میرے والد ممتاز اداکار ، ڈائریکٹر ، پروڈیوسر ، شاعر و دانشور نعیم ہاشمی نے مجھے غنایت کے ساتھ پر عزم رہنے ، المیوں کو برداشت کرنے کی تربیت دی .

سولہ سال کی عمر میں صحافت شروع کی تو میرے نام کی ہییت نے آگے بڑھنے میں مدد دی. اپنے کیرئر میں کبھی ایک روپیہ کا بھی کاروبار نہیں کیا ہمیشہ اپنی پیشہ اورانہ صحافتی خدمات سے کمایا. زندگی میں کبھی کسی کو " نو " نہیں کہا . اخبار کے مالک نے کہا تھا "نو " کہنا سیکھ لو . اگر سیکھ جاتا تو آج آپ سب کے ساتھ محبتوں بھری سالگرہ کی یہ تقریب نہ منا رہا ہوتا .

میں فرشتہ نہیں ہوں دوسروں کی طرح مجھ میں بھی لغزشوں کی کمی نہیں . اوائل عمری سے دوستوں اور غیر دوستوں سے محبتیں سیکھ لیں تھیں . زندگی میں کبھی کسی کو چھوڑتا نہیں جس سے تعلق بنایا نبھایا. خود کو کبھی اپنے آپ کے لیے سیریس نہیں کیا . اس عمر میں بھی نان سیریس گردانا جاتا ہوں . زندگی میں صرف کامیابیاں ہی نہیں ملیں تاہم اپنی ناکامیوں کی جدوجہد میں دوستوں کو کبھی شامل نہیں کیا صرف اچھی خبریں دوستوں سے شیئر کرتا ہوں . ،

صبح کو ڈھونڈنے میں مجھے شام ہو گئی
کچھ اس طرح سے زندگی تمام ہو گئی

اپنی غزل کے اشعار سنانے کے بعد گفتگو جاری رکھتے ہوے خاور نعیم ہاشمی نے کہا کہ میرا پسندیدہ گانا ” رات بھر کا مہمان ہے اندھیرا ”ہے . اس گانے کو ضیاء دور میں شاہی قلعہ میں اسیری کے ایام میں آزادی صحافت تحریک اور سیاسی جدوجہد کے قیدی مل کر گایا کرتے تھے . شاہ حسین کالج میں زمانہ طالب علمی میں ، میں نے نظم / غزل لکھنے کی شروعات کیں تھیں . صنف نازک سے بیشمار محبتیں کیں. اس ضمن میں منیر نیازی کی پیروی کرتا ہوں .مرد اور عورت میں دھاگہ برابر فرق ہے . جنہیں میں نے چاہا وہ مجھے اور میں اسے نہ مل سکا ،

جدھر جدھر سے عروس بہار گزری ہے
چمن چمن پہ خرابی ہزار گزری ہے

آزاد کوثری مرحوم جنہوں نے نجم سیٹھی کو دانشور بنایا سے بہت کچھ سیکھا .
راہ حیات میں یوں بےدلی کا ساتھ نہ دے

صدر تقریب لاہور پریس کلب کے صدر محمّد شہباز میاں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خاور نعیم ہاشمی نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کی صحافت کا فخر ہیں. جدوجہد ، کمٹمنٹ ، پیشہ وارانہ لیاقت اور محبتوں کی بنا پر دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں . ہر شخص کے ساتھ رشتہ میں انفرادیت رکھتے ہیں میری ان سے انیس سالہ رفاقت ہے . صحافت میں میرے با قاعدہ استاد ہیں.

محمّد شہباز میاں نے کہا ڈیلی دی " نیوز" جوائن کیا تو تو وہاں نئے لوگوں کو برداشت نہ کرنے کا رجحان تھا لیکن خاور نعیم ہاشمی جیسے لوگ بھی اس ادارہ میں موجود تھے جو نوجوانوں کی رہنمائی و کردار سازی کرتے اور بطور صحافی معاشرتی ذمہ داریاں سکھاتے. صحافتی سیاست میں میری آمد ان کی حوصلہ افزائی و تربیت سے ہوئی جس کا آغاز دو ہزار سات میں لاہور پریس کلب میں پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے سے ہوا گو یہ انتخاب میں ہار گیا لیکن بعد ازاں صحافی برادری کی فلاح و بہبود میری زندگی کا مشن بن گیا جس کا تمام کریڈیٹ انہیں جاتا ہے.

انہوں‌نے کہا ہاشمی صاحب ہمیشہ اجتمایت کی بات کرتے ہیں .صحافی برادری کی بہتری کے لیے ہمہ وقت مصروف جدوجہد رہتے ہیں. ان کی زندگی میں کبھی ناکامی نہیں دیکھی. ضیاء آمریت میں ملنے والی کوڑوں کی سزا ملنا جبکہ کوڑوں کی سزا کے صلہ میں کسی قسم کی مراعات حاصل نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہاشمی صاحب غیور قافلہ صحافت کے سپہ سالار ہیں . جب تک صحافت ہے خاور نعیم ہاشمی کا نام رہے گا .

لاہور پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید ساجد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہاشمی صاحب میرے آئیڈیل اور لیڈر ہیں. ان سے حد درجہ متاثر ہوں .انھوں نے اعلان کہ تیرہ مئی کو گزشتہ سال کی طرح خاور نعیم ہاشمی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لاہور پریس کلب کی طرف سے یادگار تقریب کا اہتمام کیا جائے گا .

سینئر صحافی خالد چوہدری نے کہا ان سے تعلق تب سے ہے جب " مساوات " کا دفتر بھاٹی میں تھا. شوکت صدیقی ، احمد بشیر ، منو بھائی ، حسین نقی جیسے لوگ ہماری تربیت کرتے تھے. ستر کی دہائی میں لیفٹ اور رائٹ کے نظریات میں بحث و مباحثہ تھا لیکن ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ انھوں نے کہا میری اور ہاشمی صاحب کی لیفٹ کے نظریات سے گہری کمٹمنٹ تھی ہم سوشلسٹ سماج کی تشکیل چاہتے تھے جس کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں. فخر ہے جدوجہد کے دوران کبھی معافی نہیں مانگی اور نہ مراعات لیں .


علامہ صدیق اظہر
نے کہا میرا پچاس سالہ تعلق ہے . دوستی کے اس طویل دورانیہ میں ان کو ہمیشہ غیر سنجیدہ دیکھا لیکن ضیاء آمریت میں جب نامور صحافی نوکری جانے و جیل کی سزا سے ڈرتے تھے تب خاور نعیم ہاشمی اپنی کمٹمنٹ میں سنجیدہ ہو کر جدوجہد کی لا زوال تاریخ لکھ گۓ. مولوی سعید اظہر نے کہا ستر کی دہائی میں صحافیوں کی جنریشن میں جو کمٹمنٹ و جدوجہد تھی اسے خاور نعیم ہاشمی نے دوام بخشا اس کے بعد خلا ہے جو ابھی تک پورا نہیں ہو سکا .

نعیم مصطفیٰ نے کہا ہاشمی صاحب نے جونیرز کی پروموشن میں بھر پور کردار ادا کیا جس کا تسلسل جاری ہے. ٹریڈ یونین ازم میں میری کامیابیاں ان کی مرہون منت ہیں .

تاثیر مصطفیٰ نے کہا تینتالیس سالہ قربت کے دوران انہیں ہمیشہ ایک محنتی ، دیانت دار اخبار نویس کے طور پر دیکھا جبکہ نیوز ، میگزین اور براڈ کاسٹنگ کی صلاحیتوں میں بھی با کمال ہیں. عباس اطہر کے بعد اچھی سرخیاں نکالنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں. انھوں نے کارکنوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی تاثیر مصطفیٰ نے مزید کہا کہ خاور نعیم ہاشمی نے اپنے مرحوم والد نعیم ہاشمی کو جس طرح زندہ رکھا اور اپنے بھائی کی تعلیم و تربیت کے لیے جو رول نبھایا وہ بے مثال ہے.

راجہ ریاض نے کہا ہاشمی صاحب بڑے صحافی ، بڑے لیڈر تو ہیں لیکن انسان بہت بڑے ہیں.

زوار حسین کامریڈ(راقم السطور) نے کہا خاور نعیم ہاشمی کی آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کو عالمی طور پر ضیاء دور میں ہی حد درجہ سراہا گیا تھا لیکن اس ضمن میں صحافتی نصاب میں کچھ پڑھایانہیں جاتا. زوار کامریڈ نے لاہور پریس کلب کے قائدین سے مطالبہ کیا کہ اس تاریخی جدوجہد

کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کلب کے احاطہ میں یادگار تعمیر کی جائے اور ضیاء دور میں آزادی صحافت کی جدوجہد کو صحافتی نصاب میں شامل کی جائے.

عابد خان نے کہا خاور نعیم ہاشمی نے کوڑوں کی سزا کو کروڑوں میں نہیں بدلا جو کمٹمنٹ کی استقامت ہے. انھوں نے کہا ہاشمی صاحب کے گرد نوجوانوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے ایسی مقبولیت بہت کم لوگوں کو ملتی ہے.

ممتاز ترقی پسند دانشور ڈاکٹر لال خان نے کہا کوڑے کھانے جیسی بہادری تب ہوتی ہے جب مزاحمت بغاوت کا روپ دھارے. مزاحمت کی میراث کو بہت کم لوگ آگے لے کر جاتے ہیں. خاور نعیم ہاشمی آج بھی مزاحمت کے اس عہد کی قدروں کو ختم نہیں ہونے دے رہے. مزاحمت کی میراث کو آج کی نسل میں منتقل نہ کیا گیا تو بربریت غالب آ جائے گی .

تقریب سے اجمل نیازی ، روزینہ ندیم ، نزہت فراز ، اشرف سہیل ، انوار قمر ، میاں راشد فرزند ، عرفان احسان ، طارق کامران ، ریاض صحافی ، اسلم بھٹی ، چوہدری اسلم، ایمرا کے روح رواں آصف بٹ سینئر ٹی وی آرٹسٹ مسعود اختر ، قیصر عباس، خاور نعیم ہاشمی کے فرزند نعیم ہاشمی اور لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے ممبرز قاسم رضا ، شاہنواز رانا اور رضوان خالد نے بھی اظہار خیال کیا. اختتام پر سالگرہ کا کیک کاٹا گیا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے