حسین حقانی معاملہ: تحقیقات قومی اسمبلی کی کمیٹی کے سپرد

اسلام آباد : امریکا میں پاکستان کے سابق حسین حقانی کے دعوے کی تحقیقات کرنے کے لیے کمیشن تشکیل دینے کے بجائے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے معاملہ قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سپرد کردیا۔

کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین اویس لغاری پیر کو وزیر دفاع خواجہ آصف اور اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کریں گے، اویس لغاری نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے دفاع کو بھی اس کارروائی میں شامل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

وزیر دفاع کی جانب سے کثیر الجماعتی پارلیمانی کمیشن کے سامنے یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا، جب ایوان میں حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونےوالے مضمون پر بحث جاری تھی۔

حسین حقانی نے اپنے مضمون میں اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سول قیادت کی منظوری سے امریکی اسپشل فورسز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو سہولت فراہم کی،ان کے مطابق اسی وجہ سے امریکا نے پاکستان کی مدد کے بغیر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ کر ہلاک کیا۔

یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں اویس لغاری کی جانب سے اٹھایا گیا، خواجہ آصف کی اس تجویز کو اپوزیشن جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے سراہا گیا۔

پیپلز پارٹی نے ہی حسین حقانی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا تھا، حسین حقانی کے دعوے کے مطابق اس وقت کے صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور اس وقت کی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی شامل تھے۔

اویس لغاری نے ڈان کو بتایا گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نئی باڈی بنانے کی تجویز مسترد کی اور اس معاملے کو دیکھنے کے لیے وہ موجودہ نظام کو ہی استعمال کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر مکمل اور منظم انداز میں کارروائی ہوگی جبکہ اس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔

پارلیمانی کمیٹیوں کو قانون سازی کے لیے آنکھ، کان اور دماغ سمجھا جاتا ہے، حالیہ تاریخ میں بمشکل ہی ایسا کوئی موقع آیا ہے کہ جب کسی بھی ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات کرنے پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کی گئی ہو،تاہم گزشتہ ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے میمو گیٹ اسکینڈل اور سانحہ آرمی پبلک اسکول جیسے واقعات کی تحقیقات کے حوالے سے پارلیمانی کردار کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔

پارلیمانی کمیٹیوں کے طے کردہ قواعدہ ان کو تحقیقات کے اختیارات نہیں دیتے، ایسے کیسز کی تحقیقات کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹیوں کی صلاحیت ایک الگ مسئلہ ہے، تاہم پارلیمانی کمیٹیاں سرکاری محکموں سے معلومات حاصل کرنے کے حوالے سے بہترین تصور کی جاتی ہیں۔

کمیٹیوں کو وزارتیں تفویض کی جاتی ہیں، جن کے انتظامی امور، پالیسیوں ، اخراجات اور کارکردگی کی نگرانی ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ کمیٹیوں کے پاس اس قسم کی تحقیقات کرنے کی مطلوبہ صلاحیت موجود ہی نہیں ہے۔

انہوں نے دلیل کے ساتھ کہا کہ یہ کمیٹیاں معاملات کی سماعت ہی کر سکتی ہیں۔

اس حوالے سے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھاکہ کمیٹیاں تحقیقاتی اداروں کو ہدایت دے سکتی ہیں کہ وہ ایسے معاملات کی تحقیقات کریں، اس سے اخذ ہونے والے نتائج کی جانچ پڑتال کریں جس کے بعد کمیٹی نتائج کو قبول اور مسترد کر سکتی ہے۔

فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی خود کسی معاملے کی تحقیقات نہیں کر سکتی، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کمیٹی کے ارکان بھی ماہر نہیں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے