بعض دوست پا نا مہ کیس کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلیجنس ( ایم آئی) کی شمولیت پر اعتراض کر رہے ہیں. ان دوستوں کا مو قف ہے کہ ایک خالص فوجی ادارے کا اہلکار کس اختیار کی تحت سویلین وزیراعظم سے تفتیش کر سکتا ہے؟
ان دوستوں کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک فوجی کو اتنے بڑے پیمانے پرمالی معاملات اور اثاثہ جات کی کیا سمجھ بوجھ کہ وہ اس نوعیت کی انتہائی پیچیدہ تفتیش کا حصہ بنے؟
تو ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلی بات اگر ایک وزیر اعظم دوسروں کے لئے فوجی عدالتوں کے انصاف پر اندھا اعتماد کر سکتا ہے۔ ان فوجی عدالتوں کے قیام کی پارلیمنٹ سے منظوری لے سکتا ہے تو پھر اسے ایک فوجی تفتیش کار پر خود بھی اعتماد کرنا چاہیے۔ رہی بات ایک فوجی کے لئے مالی معاملات کی سمجھ بوجھ کی تو اطمینان رکھیے! گھی ، آٹا ، دالیں ،چاول ، دلیہ بنانے اور بیچنے سے لے کر سیمنٹ اور کھاد کے کارخانے کامیابی سے چلانے میں ہماری فوج سے زیادہ ایکسیئلنس کس نے حاصل کی ہے۔ اور بات ہو غیر قانونی پراپرٹی اور اثاثہ جات کی تو پھر بھی ان کی تفتیش کا کوئی ثانی نہیں ہو سکتا۔
اس سلسلے میں وضاحت کے لئے میں سپریم کورٹ کے ہی ایک سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس کا سہارا لوں گا جو انہوں نے آرمی کے زیر انتظام ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی لاہور کے ایک زمینی تنازعے سے متعلق مقدمے میں دیے تھے۔ جج صاحب کا کہنا تھا کـہ ہمسایہ دشمن ملک بھارت اس وقت سب سے زیادہ خائف ہماری ڈی ایچ سے ہے کہ کہیں یہ واہگہ بارڈر پر اپنی ہاوسنگ سکیموں کی زمین کو توسیع دیتے ہوئے بھارتی علاقہ بھی اپنی پراپرٹی میں میں شامل نہ کر لے۔ اس لئے میرے نزدیک ایک فوجی افسر کی پراپرٹی اور چھوٹے موٹے فلیٹس وغیرہ کی تفتیش کر نے کی اہلیت کےمعاملے میں مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔
پھر بھی میں فوج سے تفتیش کے حق میں آخری دلیل موجودہ وزیر اعظم کے انتہا ئی قریبی دوست اور سرکاری ٹی وی کے چئیرمین عطا الحق قاسمی صاحب کے ایک کالم سے مستعار لوں گا۔ یہ کالم قاسمی صاحب نےپیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سرکاری عہدوں پر غیر موزوں افراد کی بھرتیوں کے حوالے سے تحریر کیا تھا ( موجودہ حکومت نےسرکاری عہدوں پر غیر موزوں بھرتیاں بالکل بھی نہیں کی ہیں ورنہ قاسمی صاحب اس پر بھی ضرور آواز اٹھاتے)۔
تو وہ بات کچھ یوں تھی کہ قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں پیپلز پارٹی کے سینئیر وزیر چوہدری احمد مختار کے بھا ئی احمد سعید کی جنرل پرویز مشرف کے دور میں بطورچئیرمین پی آ ئی اے تقرری کا حوالہ بھی دیا تھا۔ ان کے مطابق اس وقت بھی کچھ نادان دوستوں نے نے اعتراض کیا تھا کہ چوہدری احمد سعید کا ہوابازی سے متعلق کیا تجربہ ہے جو انہیں قومی ائیر لائن کے سربراہ کا عہدہ سونپا گیا ہے۔
اس پر کسی سیانے نے انہیں جواب دیا تھا کہ چوہدری احمد سعید سے زیادہ موزوں امیدوار کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ گزشتہ کئی سالوں س انہی کے بھائی کے جوتیاں بنانے کی فیکٹری سروس نے لاکھوں کی تعداد میں ’ہوائی چپل‘ تیار کیے ہیں۔