کمیونسٹ چین کی مذہبی پالیسی

1939 کے سرخ انقلاب کے بعد چین میں ایک جماعتی سیاسی نظام قائم ہے. کمیونسٹ پارٹی، جو کہ سرکاری بیانیے کے مطابق ایک غیر مذہبی بلکہ ملحد اور دہریہ جماعت ہے. پارٹی کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لیے ملحد یا دہریہ ہونا ضروری ہے .

کمیونسٹ پارٹی نے انقلاب چین کے بعد ایک اور ثقافتی اور سماجی انقلاب کی داغ بیل ڈالی ، جو کہ چین کی تاریخ میں کلچرل انقلاب کے نام سے موسوم ہے . چیئرمین ماؤزے تنگ کی قیادت میں بپا اس سماجی اور ثقافتی پراپیگنڈہ مہم کا مقصد "تاریخ کے بوجھ ” سے جان چھڑانا اور قوم کو جدید سائنسی تکنیک کے زریعے ” آئیڈیل کمیونسٹ سماج ” کی جانب گامزن کرنا تھا . کلچرل انقلاب کی یہ مہم جو کہ ماؤ کے وفادار سرخ گارڈز کے ذریعے بپا کی گئی، دراصل ” قدیم نظریات ، قدیم کلچراور قدیم عادات” کو چینی معاشرے سے کھرچنے کی مہم تھی . جاگیردارانہ اور استحصالی طبقات انسانیت کے دشمن قرار پا ئے اور مذھب انکا آ لہ استحصال. ریاستی جبر کی انتہا یہ تھی کہ جب مسلمانوں پر عربی زبان کے استعمال حتی کہ عربی ناموں تک پر پابندی عا ید کر دی گئی اور زبردستی خنزیر پالنے اور خنزیر کھانے پر مجبور کیا گیا .

1966 سے 1976 تک جاری رهنے والی یہ مہم چین بھر میں مساجد، مندر ، چرچ اور دیگر عبادت گاہوں کی تباہ کرتی، کروڑوں زندگیاں اجا ڑتی چیئرمین ماؤ کی وفات کے ساتھ انجام کو پہنچی . اسکے پیدا کردہ خوفزدہ ماحول کی بازگشت آج بھی چینی لوگوں کے رویوں میں محسوس کی جا سکتی ہے . ماؤ کے انتقال کےبعد جہاں دیگر شعبوں میں نمایاں تبدیلیاں کی گئیں وہیں مذھب کو بھی "برداشت” کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی . ہم اس نشست میں چین کی اسی مذہبی پالیسی کا جائزہ لیں گے .

چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنے سرکاری بیانیے میں مذھب کو ترقی دشمن قرار دیتی ہے . چین کا آئین مذھب کو ایک انفرادی معاملہ قرار دے کر مذہبی انجمن سازی کی اجازت نہیں دیتا . دراصل کمیونسٹ پارٹی اپنا سیکولر بیانیہ کارل مارکس کے نظریات سے اخذ کرنے کا دعوی رکھتی ہے. پارٹی ” کمیونسٹ آئیڈیل ” کے حصول تک مذھب کوانفرادی سطح پر ” برداشت” کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے .اس سلسلے میں 1982 میں جاری کردہ ڈاکومنٹ 19 اہمیت کا حامل ہے جو چینی سماج میں مذھب کا کرداروا ضح کرتا ہے . ڈاکومنٹ 19 کے مطابق ” قدیم سوچ اور قدیم عادات فوری طور پر تبدیل یا ختم نہیں کی جا سکتیں. لہذا ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب سائنسی تعلیم مذہبی فسوں کا مکمل خاتمہ کر دے” . اس مقصد کے حصول تک پارٹی ممبرز (جو کہ چینی سیاسی نظام میں اصل قوت کے حامل ہیں ) کو مذھب کی جانب معتدل اور محتاط رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے.

[quote bgcolor=”#cccccc”]چینی حکومت "مذھب ” کے طور پر پانچ مذاھب کو تسلیم کرتی ہے . جن میں اسلام، بدھ مت ، تاؤمت ، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیت شامل ہیں . فولک مذاہب کو "جاگیردارانہ وساوس” قرار دے کر مذھب کی تعریف سے خارج کر دیا گیا ہے .[/quote]

چینی نظام میں سول سوسائٹی یا آزادانہ انجمن سازی کی کوئی گنجائش نہیں. لہذا اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن فار ریلیجس افیئرز(سارا ) نامی سرکاری ادارے کی نگرانی میں "محب وطن ” انجمنیں قائم کی گئی ہیں جو ہر مذھب کے ماننے والوں کے معملات کی نگرانی کرتی ہیں. مسلمانوں کی "محب وطن” مذہبی تنظیم اسلامک ایسوسی ایشن آف چائنہ ہے . ‘سارا’ کے کام کی نگرانی پارٹی کا محکمہ یونائیٹڈ فرنٹ ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے.

مغرب اور چین کے ” مذہبی آزادی ” کے مفہوم میں فرق ہے . مغرب میں مذہب کو ایک انفرادی معاملہ قرار دے کر چرچ اور ریاست کے مابین مکمّل علاحدگی کا تصور پایا جاتا ہے . جبکہ چین میں ریاست مذہبی رہنماؤں کا تقررکرتی ہے ، عبادت گاہوں کی تعمیر میں مدد کرتی ہے اور مذہبی رہنماوں کی تنخواہ تک ادا کرتی ہے. اس پر مستزاد چینی ریاست کسی بھی مذہبی رسم کے "غلط ” یا "صحیح ” قرار دینے کا بھی اختیار رکھتی ہے. "آزادی ” صرف مذہب پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی ہے.

اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو چین کی موجودہ پالیسی قدیم چینی شاہی روایت کی جانب رجوع ہے. چینی بادشاہتیں نا صرف مندروں کی سرپرستی کرتی تھیں بلکہ "صحیح ” یا "غلط ” مذہبی رسم کا فیصلہ بھی بادشاہ سلامت کا حق سمجھا جاتا تھا. بادشاہ کی حیثیت ظل الہی کی تھی جو خدا کی طرف سے فرستادہ تھا اور لوگوں کے دینی و دنیاوی معاملات کا نگران تھا .موجودہ صدر شی جنپنگ نے ٢٠٠٨ میں ، جبکہ آپ عوامی جمہوریہ کے نائب صدر تہے، چینی پالیسی کی تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ” کمیونسٹ پارٹی اب انقلابی جماعت نہیں بلکہ ایک حکمران جماعت ہے ، اسے بطور حکمران ہی فیصلے کرنا ہوں گے.” ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ مذہبی معاملات میں سرپرستی کی حد تک کمیونسٹ پارٹی وہی کردار ادا ار رہی ہے ہو تاریخ مے شاہی دربار کا تھا. تبت کے بدھوں کے روحانی رہنما دلائی لامہ کے چینی حکومت سے اختلافات میں ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ علانیہ ملحد اور دہریہ حکومت مذہبی رہنماوں کے تقرر کا اختیار کیوں کر رکھتی ہے.

ایک کمیونسٹ آئیڈیل کے حصول کے لیے جہاں چینی ریاست دیگر شعبوں میں مختلف اقدامات کر رہی ہے وہیں ایک ملحد سماج کی تشکیل کیلیے ملحدانہ نظام تعلیم بھی تشکیل دیا گیا ہے جو پرائمری اسکول سے یونیورسٹی سطح تک لازمی قرار دیا گیا ہے. جبری ملحدانہ نظام تعلم کی وجہ سے آج چینی عوام کی اکثریت لا مذہب ہے . مگر دوسری جانب مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے . زیل میں چین میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ پانچ مذاھب کے ماننے والوں کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے .

کیتھولک عیسا ئی کافی حد اپنے آپ کو چینی سماجی روایت میں ڈھالنے میں کامیاب رہے ہیں. مگرانکا پوپ سے وفادار ہونا چینی حکومت کے لیے تحفظات کا باعث ہے. چینی حکومت اور ویٹیکن کے مابین دو دہائیوں سے مذاکراتی عمل جاری ہے مگر دونوں ریاستوں کے درمیان موجود عدم اعتمادی نے تعلقات کو پنپنے نہ دیا . ویٹیکن کیتھولک پیروکاروں کی لیے مزید حقوق کا مطالبہ کرتا رہا ہے جبکہ چینی حکام کو پوپ کے بڑھتے اثر رسوخ سے چین کے اندرونی عدم استحکام کا خدشہ ہے. مزید براں چینی حکومت کے لیے زیرزمین کام کر رہے کیتھولک چرچ بھی درد سر بن چکے ہیں جو پیٹریاٹک کتھولک ایسوسی ایشن (سرکاری انجمن برائے کیتھولک ) کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے . ایک اندازے کی مطابق ان چرچوں کی تعداد سرکاری چرچوں سے کم از کم تین گنا زیادہ ہے .

پروٹسٹنٹ عیسائی "گھریلو چرچز ” کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے. "ریفارم لائرز ” اور انسانی حقوق کے چیمپئنز کی زیادہ تر تعداد اسی فرقے سے ہے .

چینی بدھ مت چینی ثقافت کا آئینہ دار ہے اور اسکے رہنما برضا و خوشی سرکار کا قائدانہ کردار قبول کرتے ہیں. مگر تبت میں دلائی لامہ کے پیروکاروں کو قابو میں رکھنا چینی حکومت کیلیے چیلنج ہے. ١٩٥٩ سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے دلائی لامہ آج ایک بین الاقوامی سیلبرٹی بن چکے ہیں. ان کی کرشماتی شخصیت کی چینی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے چین متعدد بار بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر خفت کا سامنا کر چکا ہے . چین کا سرکاری میڈیا دلائی لامہ کو اسامہ بن لادن کی سطح کا دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے جو ان کی شخصیت کو متنازعہ بنا نے کی بجائے مزید مستحکم کرتا ہے .

چین میں اسلام کی تاریخ خلیفہ سوم عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ملتی ہے . صحابی رسول ابن ابی وقاص کا روضہ سا حلی صوبے guandong میں موجود ہے. مسلما نوں کے کل ١٠ مختلف النسل گروہ موجود ہیں. جنکے حالات کا تذکرہ ہم اگلی نشست میں کریں گے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے