ٹرمپ انتظامیہ بھارت کو 2ارب ڈالر کے ڈرون فروخت کرنے پر رضامند

واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے ڈرون بنانے والی کمپنی کو بھارت کے ساتھ جاسوسی کے لیے بغیر پائلٹ چلنے والے طیاروں کی فروخت کے معاہدے کی اجازت دے دی۔

ڈرون بنانے والی کمپنی جنرل اٹامکس ایئروناٹیکل سسٹم کے سی ای او لنڈن بلیو نے ایک بیان میں بھارت کو ڈرون طیاروں کی فروخت کی امریکی حکومت کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بھارت اور امریکا کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ دونوں ممالک کے دفاعی شعبے میں تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا اشارہ ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکا کے دورے پر اس اقدام کو اہم قرار دیا جا رہا ہے، مودی پیر (26 جون) کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔

بھارت نے امریکا سے اپنی سمندری حدود کی نگرانی کے لیے MQ-9B نامی 22 طیارے خریدنے کی درخواست کی تھی جس کی لاگت 2 ارب ڈالر ہے تاہم یہ معاہدہ امریکی گانگریس کی منظوری سے مشروط ہے۔

اطلاعات کے مطابق شمال مشرقی افریقی ملک جبوتی میں چین کی جانب سے بنائے جانے والے پہلے سمندر پار فوجی اڈے کی وجہ سے بھارت نے بحیرہ ہند میں سمندری حدود کی نگرانی کے لیے امریکا سے جاسوس طیارے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی۔

اس معاہدے سے قریب معلومات رکھنے والے کانگریس کے ایک نمائندے نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو اس معاہدے کی منظوری کی تصدیق کی۔

سیاسی و فوجی امور کے محکمہ خارجہ کے بیورو کے ترجمان ڈیوڈ مک کیبے نے کہا کہ کانگریس کی جانب سے اس معاہدے کے منظور ہونے تک وہ اس معاملے پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔

وائٹ ہاؤس کے سینیئر اہلکار نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ امریکا قریبی اتحادیوں اور دفاعی شراکت داروں کی طرح بھارت کو بھی جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

بھارت کے امریکا کے ساتھ دفاعی تعلقات تاریخی طور پر بہتر نہیں رہے لیکن گذشتہ کچھ برسوں میں بھارت اور امریکا کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون دیکھنے میں آیا ہے۔

بھارت اور امریکا کے درمیان دفاعی شعبے میں 9 برس قبل بھی 15 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق امریکا نے بھارت کو C-130J ، فوجی مسافر طیارےC-17 ، سمندری حدود کی نگرانی کے لیے P-8I طیارے، ہارپون میزائلیں اور اپاچی ہیلی کاپٹر فراہم کرنا شامل تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے