نواز شریف کی ایک اور عید لندن میں

وزیراعظم نوازشریف بڑے خاندانی قافلے کے ساتھ مکہ مدینہ میں عبادات میں مصروف رہنے کے بعد لندن پہنچ چکے ہیں ۔۔ اللہ پاک ان کی عبادتوں کو قبول فرمائے۔۔عالی جاہ رمضان کی برکتیں سمیٹنے کے بعد عید کی خوشیاں منانے لند ن پہنچے ہیں۔۔کراچی ، کوئٹہ اور پارہ چنار میں ایک ہی دن دہشتگردی کے تین واقعات میں 65سے زائد افراد لقمہ اجل بنے تو اس غلط فہمی نے جنم لیا تھا کہ شاید وزیراعظم فیملی لندن رخصت کرکے خود لہو لہوخاندانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے پاکستان آ جائیں گے۔۔۔عید کی خوشیاں منانے کی بجائے دہشتگردی کی ماری قوم کے ساتھ سادگی سے عید منانے کو ترجیح دیں گے۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہو ا۔۔ نوا زشریف لند ن پہنچے تو میڈیا سے گفتگو میں جے آئی ٹی اور مخالفین ہی ان کا موضوع رہا۔۔
نواز شریف نے لند ن میں عید منانے کی راویت قائم کررکھی ہے۔۔۔وہ تو مرحوم محمد شریف تھے جو عید ماڈل ٹاون کی اتفاق مسجد میں پڑھتے تھے ۔۔ عید پر لاہور ہی نہیں دیگر شہروں سے بھی میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس لوگ محمد شریف (مرحوم) سے ملنے آتے تھے۔۔ ان کو اپنے دکھ درد سناتے تھے اور مسجد سے ملحقہ چھوٹے سے سیکرٹریٹ میں ان کی داد رسی بھی ہو جاتی تھی ۔۔ عید کی خوشیاں بھی مل جاتی تھیں۔۔۔میاں صاحب ذرا وکھرے ٹائپ کا مزاج رکھتے ہیں۔۔ ۔ ان سے عام آدمی تو کجا ارکان اسمبلی بھی ملنے کو ترستے ہیں۔۔
سیاست کرتے ہیں غریبوں کا نام لے کر عید یں مناتے ہیں لندن میں۔۔۔ شہریت پاکستان کی کارروبار برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک میں۔۔۔ملک میں غربت ، مہنگائی بے روزگاری کے مسائل نے عام آدمی کو فاقوں تک پہنچا دیا۔۔۔ غربت اور کمپرسی سے مجبور لوگ خود کشیاں کررہے ہیں۔۔ ۔بڑے پیمانے پر لوگوں کا کوئی زریعہ آمدن ہے نہ قوت خرید۔۔۔ایسے میں آئی آر ۔۔ بلوم برگ اور دیگر عالمی اداروں سے سروے شائع کرائے جارہے ہیں۔۔ دنیاکے سامنے ایک نئی تصویر رکھی جاتی ہے جو شاید قوم دیکھ کر کڑتی ہے۔۔ عوام کو بتایا جاتاہے کہ پاکستان میں شرح نمو پانچ فیصد سے اوپر چلی گئی ہے۔۔
جس کے گھر بچو ں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہ کراچی سٹاک ایکس چینج میں بہتری کا کیاکرے گا؟ اسحاق ڈار بتاتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دنیاکی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہو چکی ہے۔۔۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ملک بھر میں لوگوں کو مہنگائی کے باعث تین دن فروٹ کابائیکاٹ کرنا پڑا۔۔بجٹ تقریر میں تو یہ منہ ٹہڑا کرکے کہہ جاتے ہیں کہ اس ڈیوٹی کا ۔۔ اس ٹیکس کا ۔۔ قیمت میں اضافے کا عام آدمی پر فرق نہیں پڑے گا ۔۔ ۔ اس طبقہ کو عام آدمی زندگی کا اندازہ بھی نہیں ہے۔۔
حسین نواز کی کمرے میں آرام سے بیٹھے ہوئے ایک تصویر منظرعام پر آنے سے ردعمل میں ہم نے بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دیکھا ۔۔ سلسلہ وار پریس کانفرنسیں دیکھیں ۔۔۔ الفاظ کی جگالی ۔۔۔ ایک ہی بات کااشتہار لگاتے ہوئے سب کو دیکھا ۔۔ کہا جارہا ہے کہ تصویر منظر عام پر آنے سے تضحیک ہوئی ہے۔۔۔۔اس ملک میں کرسی پر بیٹھے تصویر کو تضحیک آمیز کہا جارہاہے۔۔۔۔جہاں ستر ستر سال کے بوڑھے سورج کی تمازت میں میلوں لمبی قطاریں لگا کر پنشن لیتے ہیں۔۔۔ان کی تصاویر اخبارات میں چھپتی ہیں کسی کو تضحیک کا عنصر نظر نہیں آتا۔۔
پولیس غریب لوگوں کو ٹھڈے مارتی ۔۔۔ جعلی مقدمات بناتی ہے ۔۔ میڈیا پر نیوز چلتی ہیں مگر کسی کو تضحیک نظر نہیں آتی۔۔ ۔ایک نہیں سیکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں۔۔ عام آدمی کی قدم قدم پر تضحیک ہوتی ہے مگر صرف حکمران ہی نہیں تمام اشرافیہ خاموش رہتی ہے۔۔۔ پانامہ کیس سے دنیا بھر میں پاکستان کی کتنی تضحیک ہو رہی ہے ۔۔ ۔ اک نظر اس پر بھی ڈال دیں۔۔۔اداروں پر حملے کریں۔۔ برا بھلا کہیں۔۔ آئین اور قانون کے مطابق چلنے والوں کو کھلے عام ہدف بنائیں ۔۔ یہ بھی ملک کی تضحیک ہی ہے۔۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما، کارکن اور حامی بھی اس بات پر احتجاج نہیں کرتے ۔۔ ۔ خاموش تماشائی بن جاتے ہیں ۔۔ مجال ہے جو کوئی یہ سوال ہی کردے کہ وزیراعظم صاحب عید منانے لند ن کیوں چلے جاتے ہیں؟ ۔۔ دہشتگردی کی ماری قوم ، قربانیاں دیتے ملکی دفاعی اداروں ، متاثرین اور پاکستان کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے اور عام و غریب آدمی آپ کو عید پر کیوں بھول جاتے ہیں؟۔۔۔ آپ جب وزارت اعظمی ٰ کے منصب پر فائز ہیں تو پھرآپ پر صرف حسین نواز ، حسن نواز یا اپنی فیملی کے ہی نہیں پورے ملک کا حق بنتاہے۔۔ ۔۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ برطانوی وزیراعظم کریسمس منانے پاکستان آئے ہوں؟
نواز شریف کے قول وفل میں تضاد کی ایک جھلک ہم کشکول توڑنے کے دعووں سے دیکھ سکتے ہیں۔۔اپوزیشن میں تھے تو کشکول توڑنے کی باتیں اور دعوے کرتے تھے۔۔۔ اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئے تو ملکی تاریخ کے ریکارڈ قرضے لے ڈالے۔۔جس معیشت کے نغمے گاتے ہیں اس کو قرضوں کے سہارے ہی رنگ روغن کرتے ہیں۔۔۔ جب یہ اقتدار سے رخصت ہوں تب پتہ چلے گا کہ کتنے گل کھلا کر گئے ہیں۔۔۔۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف چھوٹے میاں صاحب شہباز شریف نے مینار پاکستان کے سائے تلے صوبائی کابینہ کااجلاس بلا لیا تھا۔۔ ہاتھ والا پنکھا جھلاتے ہوئے اقتدار میں آکر دو سال میں لوڈ شیڈنگ کے دعوے کرتے تھے ۔۔
چار سال گزر گئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل میں بند نہیں ہو سکا۔۔۔ جھوٹ بولنے پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔۔۔ پاکستان میں خوشحالی کی داستانیں عام ہیں۔۔۔ مگر عام آدمی کو خوشحالی نظر نہیں آتی۔۔۔ ایسے میں جب شریف فیملی نواز شریف کی قیادت میں لندن پہنچ جاتی ہے تو لوگوں کو اپنے اور عالی جاہ کے درمیان فاصلوں کا اندازہ ہوتاہے۔۔۔ کاش وزیراعظم دہشتگردی کے پے درپے واقعات کے بعد لند ن کی بجائے وطن واپس آکر عید دہشتگردی سے متاثرہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے ساتھ گزارنے کااعلان کرتے ۔۔زخمیوں کی عیادت کرتے تو ان کے حوصلے بلند ہو جاتے۔۔
بدقسمتی سے لندن پہنچ کر بھی وزیراعظم کی زبان پر دہشتگردی میں شہید ہونے والوں کے لئے کلمہ خیر نہ نکلا۔۔۔ میڈیا سے گفتگو میں جے آئی ٹی اور مخالفین پر برسے۔۔ اپنے اثاثوں اور کارو بار کا دفاع کرتے نظر آئے۔۔برطانیہ والے بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ پاکستان کا شاہی خاندان بھی کتنا عجیب ہے۔۔۔ عید اپنوں کے ساتھ منانے کی بجائے لندن پہنچ جاتاہے۔۔ حسین نوازاور حسن نواز کو پاکستان آنے کا کہتے ۔۔ بے شک عید ان کے ساتھ ہی جاتی عمرا میں مناتے۔۔۔ کچھ لیگی رہنما اور ورکرز عید کی خوشیوں میں ان کے ساتھ ہو جاتے پھر بھی تسلی ہوتی کہ وزیراعظم اپنوں میں موجود ہیں۔۔
نوازشریف جب پرویز مشرف سے معاہد ہ کرکے سعودی عرب گئے تھے تو ہر سال نواز شریف کی طرف سے یہ گلہ اور شکایت سامنے آتی تھی کہ انھیں پاکستان میں عید منانے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ۔۔ ۔ اقتدار میں آئے تو عید پاکستان میں کرنے کی بجائے لندن چلے جاتے ہیں۔۔۔پانامہ کیس سچ ہے یہ افسانہ۔۔شریف فیملی کے بیرون ملک اثاثوں کی داستانیں حقیقی ہیں یاتخیق کردہ ۔۔۔ اس بات کا فیصلہ تو سپریم کورٹ کے فیصلے میں سامنے آئے گا۔۔۔ بظاہر عوام اور وزیراعظم کے درمیان معاشرتی فاصلہ بھی غریب قوم کے احساس کو بیدار کرنے کیلئے کافی ہے۔۔۔ان کیلئے یہ بے معنی سے الفاظ ہوں گے مگر دیارغیر میں بسنے والے اس درد کو محسوس کرسکتے ہیں کہ عید اپنوں میں منانے کیلئے وہ کتنا تڑپتے ہیں۔۔ اپنوں میں عید کی اپنائیت کیا ہوتی ہے یہ وہ طبقہ کبھی نہیں سمجھ سکتا جو صرف اقتدار کیلئے پاکستان آتاہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے