افغانستان میں کامیابی کے حصول کیلئے امریکی سینیٹرز کی کوششیں

پاکستان اور افغانستان کا گذشتہ ہفتے دورہ کرنے والے اہم امریکی سینیٹرز افغان جنگ پر اختلافات کا شکار ہیں، کچھ کا ماننا ہے کہ مذاکرات سے قبل فوجی فتح ضروری ہے جبکہ دیگر اس مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔

تاہم امریکی میڈیا میں شائع ہونے والے بیان میں ایک خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کے مطابق پاکستان کو طالبان پر مزید دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ وہ سیاسی حل کو قبول کریں۔

پاکستان اور افغانستان کا حالیہ دورہ کرنے والے امریکی سینیٹرز کے وفد کی قیادت کرنے والے سینیٹر جان میک کین کا کہنا تھا کہ دورے سے انہیں معلوم ہوا ہے کہ افغان جنگ میں کامیابی کے لیے امریکا کو نئی حکمت عملی پر عمل کرنا ہوگا تاکہ ’دنیا کی ایک انتہائی طاقت ور ترین قوم اس کشیدگی میں کامیاب ہوسکے‘۔

تاہم مذکورہ وفد میں شامل دو ڈیموکریٹس میں سے ایک سینیٹر ایلزبتھ وارن نے اس معاملے کے سیاسی حل پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا اور ٹرمپ انتظامیہ پر جنگ میں کامیابی کے لیے سیاسی مذاکرات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا، ساتھ ہی انہوں نے پاکستان پر مزید اقدامات کے لیے بھی زور دیا۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’تاہم انہوں نے مثبت اقدامات کیے ہیں، ہم نے پاکستانی قیادت کو کہا ہے کہ وہ خطے میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے مزید اقدامات کریں‘۔

مذکورہ دورے کے دوران امریکی وفد نے پاکستان، افغانستان اور نیٹو کے حکام سے ملاقاتیں کی تھیں اور اس حوالے سے انہوں نے دورے کے مشاہدات کو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ شیئر کرنا تھا، اس وفد نے جنوبی وزیرستان کا دورہ بھی کیا تھا۔

امریکا کے آئندہ انتخابات میں صدر کے لیے اُمیداوار تصور کی جانے والی سینیٹر وارن نے گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں اپنے دورے کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار پر بات چیت کی۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’میں نے پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کی، جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ خطے میں پاکستان کے اہم کردار کے حوالے سے بات چیت کی‘۔ انہوں نے امریکی وفد کے ساتھ 3 جولائی کو جنوبی وزیرستان کے دورے پر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جنوبی وزیرستان میں آرمی اور مقامی رہنماؤں نے ہمیں دکھایا کہ کیسے یو ایس ایڈ ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کے ذریعے لوگوں کا معیار زندگی تبدیل کیا جارہا ہے‘۔

سینیٹر میک کین نے گذشتہ ہفتے کابل دورے کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ اگر حقانی نیٹ ورک کی حمایت سے پاکستان دست بردار نہیں ہوتا تو امریکا اس سے تعلقات پر نظر ثانی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

ادھر ریپبلکن کے صدارتی امیدوار سینیٹر لینڈسے نے بھی جان میک کین کے اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کی پرانی حکمت عملی کام نہیں کررہی کیونکہ اس سے طالبان کو کوشکست دینے پر توجہ مرکوز نہیں ہوتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے